ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں - مشتاق عاجز

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں - مشتاق عاجز

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں
موسمِ گل میں بھی اندر سے مرے رہتے ہیں

تم کو آنا ہو تو آ جاؤ مگر یاد رہے
ہم ذرا اپنے زمانے سے پرے رہتے ہیں

ہاں کبھی اپنے بھی ہمسائے ہوا کرتے تھے
اب تو ہم اپنے ہی سائے سے ڈرے رہتے ہیں

جیسے دیوار پہ رکھے ہوئے بے نور چراغ
ایسے کچھ سر بھی تو شانوں میں دھرے رہتے ہیں

ہے مگر چاند کی خواہش بھی انھی کو زیبا
جن کے کشکول ستاروں سے بھرے رہتے ہیں

ان کو سُولی پہ کہ نیزے پہ سجا دو عاجزؔ
جو کھرے ہیں وہ بہرحال کھرے رہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشتاق عاجز