وہ جو پوچھیں تو مسکرائیں ہم - لیاقت علی عاصم

 وہ جو پوچھیں تو مسکرائیں ہم
حال رو رو کے کیا سنائیں ہم

آس کی ڈور اور ہجر کی رات
کیسے کٹتی ہے کیا بتائیں ہم

سایہ دیکھیں کہ دھوپ کچھ تو کہو
پاس آئیں کہ دُور جائیں ہم

تو بھی تنہا ہے میں بھی آوارہ
آ کہیں مل کے گھر بنائیں ہم

کوئی اپنے سوا نہیں باقی
اور اب کس کو آزمائیں ہم 

غیر کا وصل، وصل ہی تو نہیں
ورنہ تجھ کو تو بھول جائیں ہم

دل سرِ آب کر لیا پتھر
آنکھ تر ہو تو ڈوب جائیں ہم

-------
لیاقت علی عاصم