برتا ہوا ہے تیرے مزاجِ کرخت کا - لیاقت علی عاصم

 برتا ہوا ہے تیرے مزاجِ کرخت کا
دل میرا کیوں حریف نہ ہو سنگِ سخت کا

تُو نے کہا تو گھر سے نکل آئے ناگہاں
صحرا میں یُوں بھی کام نہ تھا ساز و رَخت کا

شاخیں الجھ رہی ہیں سبھی اپنے آپ سے
کیا حال کر دیا ہے ہوا نے درخت کا

جتنے بھی نرم خُو تھے سبھی سنگدل ہوئے
میں دل سے معترف ہوں ترے دورِ سخت کا

شہرِ سبا کو اپنی ہوا لے گئی ہمیں
تھا سب کو انتظار سلیماں کے تخت کا

گاتا ہے گیت کون کسی اور کے لیے
روتے ہیں سب ہی رونا یہاں اپنے بخت کا

------
لیاقت علی عاصمؔ