لیاقت علی عاصم کی منتخب غزلیں اور اشعار

لیاقت علی عاصم کی منتخب غزلیں اور اشعار

بسترِ مرگ پر تھی اِک دُنیا
اور تم مر گئے ۔ کمال کیا

لیاقت علی عاصم کی غزلیں رفت اور رفتار کی غزلیں ہیں وہ پرانے مضامین کو نئی جہت اور پرانے استعاروں کو نئے مفاہیم دینے کے ساتھ اپنے معاشرہ اور اپنے حالات سے نئی علامتیں اور نئی تمثیلیں اخذ کرنے میں برابر منہمک رہتے ہیں۔ ان کا یہ انہماک ہی ان کی شاعری ہے۔ 

مانگے تانگے کے تصورات کے بجائے اپنے لہجے میں اپنے احساسات کا اظہار جدیدیت کی پہلی شرط ہے اورعاصمؔ یہ شرط بدرجہ اتم پوری کرتے ہیں۔ ان کی علامتوں میں سمندر اور آئینہ خاص طور پر ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتے اور شاعر کے احساس و خیالات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ذیل میں لیاقت علی عاصم کے شعری مجموعے "آنگن میں سمندر" سے اشعار اور غزل منتخب کی گئیں امید ہے کہ احباب اس کاوش کو قبول فرمائیں گے۔ 

1-
شاخیں الجھ رہی ہیں سبھی اپنے آپ سے
کیا حال کر دیا ہے ہوا نے درخت کا

2-
کچھ تو کم ہو یہ شورشِ دریا
ڈوب جائے خدا کرے کوئی

3-
گداز ہوتا نہیں ہے پانی میں رہ کے پتھر
ہمارے حلقے میں آ کے بدلا نہ وہ ذرا بھی

4-
مجھ بدگمانِ عشق کو معلوم ہی نہ تھا
ہوتا ہے ایک بند تو کھلتے ہیں دَر کئی

5-
کوئی اپنے سِوا نہیں موجود
اور ہے تو ہُوا کرے کوئی

6-
دوستی ہو کہ دُشمنی ہم سے
گاہے گاہے مِلا کرے کوئی

عاصمؔ آخر زمیں ہے غالبؔ کی
کس طرح حق ادا کرے کوئی

7-
خواب میں ہاتھ تھامنے والے
دیکھ بستر سے گر پڑا ہوں میں

کیوں قدم اٹھ رہے ہیں عُجلت میں
کیا بہت پیچھے رہ گیا ہوں میں

8-
مسافرانِ رہِ آستیں خیال رہے
جو اپنے شہر سے نکلا خراب و خوار ہوا

9-
ہجرتی ہوں کہ خوش نشیں ہوں میں
تا بہ افلاک بے زمیں ہوں میں


10-
اب اتنی بات پہ کیا ترکِ گفتگو اے دوست!
کبھی کبھی تو میں اندر کا شور سنتا ہوں

11-
بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے آج بھی
شام سے سیلابِ گریہ ہے ہماری راہ میں

12-
کچھ بیڑیاں ہیں خالی کچھ پاؤں بے سکت ہیں
فی الحال کیا بتائیں رُخ ہے کدھر ہمارا

13-
سہمی ہوئی رفاقت پہروں یہ سوچتی ہے
جو ہاتھ شانہ کش ہے کھینچے نہ سر ہمارا

14-
گھر کی تقسیم کے سِوا اب تک
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہوئی

15-
جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گزری اُسے خبر نہ ہوئی

16-
حسرتیں مُرجھا گئیں اِس بار بھی
آتشِ گل سے دریچہ جل گیا

آتشِ نادیدہ ہے یہ ہجر بھی
یُوں بجھا یہ دل کہ گویا جل گیا

17-
دیکھ عاصمؔ ہوائے موسمِ سرد
بھر گئی خشک و تر میں آگ ہی آگ

18-
تمام دن میں کڑی دھوپ کے سفر میں جلا
ہوئی جو شام دِیا بن کے اپنے گھر میں جلا

جلی نہ ہوگی کبھی آگ اس تسلسل سے
کہ جتنی دیر یہ دل عرصہء ہُنر میں جلا

19-
یوں کتنے بادباں تھے کوئی کشمکش نہ تھی
اِک بادباں کھلا تو مچلنے لگی ہوا

20-
کتنا رویا تھا میں تری خاطر
اب جو سوچوں تو ہنسی آتی ہے

21-
مجھے بھی جان پیاری ہو گئی جب سے یہ دیکھا ہے
مرے احباب بھی اب حلقہء قاتل سے اٹھتے ہیں

22-
بہت آسان لگتا تھا بہت دشوار تر نکلا
کوئی مجموعہء عیب و ہنر ترتیب دے لینا

23-
کیا خبر تھی حوصلہ یوں ہار کر جائے گا تُو
ناؤ جب بن جائے گی دریا سے ڈر جائے گا تُو

24-
لوگ آخر رفتہ رفتہ راستے سے ہٹ گئے
حدِ فاصل مِٹ گئی مَیں رہ گیا تُو رہ گیا

25-
ہائے کیسے لوگ تھے عاصمؔ کہ یاد آتے ہیں اب
پھول سب مُرجھا گئے ہیں ذکرِ خوشبو رہ گیا

26-
کتنی سادہ کتنی گم سم اپنے ہر انداز میں
شہر کی ہوتے ہوئے بھی گاؤں کی لگتی ہو تم

27-
کتنی غزلیں یاد آ جاتی ہیں تم کو دیکھ کر
ہو بہو میری بیاضِ شاعری لگتی ہو تم

28-
ہمارا حال ہمارے مکاں سے اچھا ہے
خدا کرے وہ سرِ رہگزر ہی مِل جائے

29-
دل میں جتنے تھے برف کے تودے
بہہ گئے باری باری آنکھوں سے

30-
قیامتوں سے گزرنا اُسی کو آتا تھا
وہ زندہ شخص تھا مرنا اُسی کو آتا تھا

کبھی قریب جو آیا کوئی تو یاد آیا
دل و نظر میں اُترنا اُسی کو آتا تھا