لیاقت علی عاصم کی کی شاعری
31-
ہدف بنایا تھا اغراضِ زندگی نے مجھے
مگر بچا لیا اندر کے آدمی نے مجھے
32-
بس اتفاق ہی کہیے کہ دَم اُلجھنے لگا
خدا بنا ہی دیا تھا مری خودی نے مجھے
33-
وہ اِک نگاہِ رفو گر کی برہمی عاصم
تمام چاکِ دل و جاں پڑے ہیں سینے مجھے
34-
محاذِ ہجر پہ ہم دونوں تندہی سے لڑے
سو ایک مارا گیا، ایک مرنے والا ہے
35-
کہیں ایسا نہ ہو دامن جلا لو
ہمارے آنسوؤں پر خاک ڈالو
منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم
ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو
بہت روئی ہوئی لگتی ہیں آنکھیں
مری خاطر ذرا کاجل لگا لو
36-
اکیلے پن سے خوف آتا ہے مجھ کو
کہاں ہو، اے مرے خوابو خیالو
بہت مایوس بیٹھا ہوں مَیں تم سے
کبھی آ کر مجھے حیرت میں ڈالو
37-
اب ایک عہدِ مدارات ہے عدو سے بھی
ہدف بھی بننا ہے جینا ہے آبرو سے بھی
زباں بُریدہ بھی چاہے مجھے مرا قاتل
کشید کرتا ہے نغمہ رگِ گلو سے بھی
خبر یہ تھی کہ سکوں کو بہ کو بحال ہوا
مگر ملا نہیں تحقیق و جستجو سے بھی
عبث اٹھاتے ہو الزامِ مصلحت عاصمؔ
طلب بھی رکھتے ہو انکار ہے سبو سے بھی
38-
اے غیرتِ بہار یہ تصویر ہے تری
یا دستہء گلاب مری خواب گاہ میں
39-
وہی خیمہ ہے وہی ہم ہیں وہی شہر کی رسم
گھر بنا لیتے ہیں سیلاب کے مارے ہوئے لوگ
40-
نسل در نسل چلی ہے یہ کشاکش اب تو
جیت لائیں گے تجھے دیکھنا ہارے ہوئے لوگ
41-
میں اپنے نام کی تختی پہ لکھ نہیں سکتا
وہ دکھ جو باپ نے جھیلے ہیں اِس مکاں کے لیے
42-
جو سخت جاں تھے بہت وہ بھی تھک گئے اب تو
کہیں پڑاؤ ضروری ہے کارواں کے لیے
43-
بھیج کر تنہا مسافت پہ مجھے گھر والے
اپنے مکتوب میں اب حدِ سفر کھینچتے ہیں
44-
میں مہر و ماہ کا محور سہی مگر یہ چراغ
بچا سکیں گے نہ اندوہِ تیرگی سے مجھے
عجیب شخص ہے غالبؔ کہ یُوں ملا عاصمؔ
معاملہ نہ رہا میرؔ و مصحفیؔ سے مجھے
45-
"بُوئے گل، نالہء دل، دُودِ چراغِ محفل"
کس کے ہمراہ یہاں سیر و سفر کو چلیے
46-
جانِ قربت غمِ دوری تو گراں ہے لیکن
بیٹھ جاتا میں اگر گھر میں تو کیا گھر چلتا
47-
چلو یُوں ہی سہی اب کے زیادہ بارشیں ہوں گی
تو کیا اپنے شکستہ بام و دَر سے بھاگ جاؤں میں
48-
یہ بھی تجھے گوارہ نہیں اے ہوا کہ ہم
دل ہی ذرا جلائیں اندھیرے مکان میں
49-
خدا ناکردہ کسی بے ہنر کے ہاتھ لگے
ہم آگ بیچ رہے ہیں دِیا سلائی میں
پتہ اگر نہیں منزل کا معذرت کر لو
لیے لیے نہ پھر شوقِ رہنمائی میں
50-
ہم اُسے دیکھنے کہاں جائیں
ساتھ رہتا ہو جو نظر کی طرح
لوگ دوڑے گھروں کی سمت آخر
شام آئی بُری خبر کی طرح
51-
نہ ٹھیرا گیا حرفِ مطلب پہ عاصمؔ
بہت موڑ آئے گفتگو میں
52-
آئی جب اپنے شہر کی تصویر سامنے
آنکھوں کے آگے پھیل گیا کربلا کا رنگ
53-
اہلِ تائید کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں پہ نہ جا
جانِ محفل تجھے محفل سے اٹھا دیں شاید
54-
آج بھی میرے عزائم ہیں چٹانوں کی مثال
میں نے اِک عمر گزاری ہے سمندر کے قریب
آؤ ہمسائے کو جلنے سے بچالیں عاصم
دیکھو اب آگ پہنچنے کو ہے اِس گھر کے قریب
55-
عدُو تھے حلقہء یاراں میں مثلِ مُوئے سپید
کہ ایک ہم نے نکالا تھا دس نکل آئے
56-
کہیے تقدیر کہ تدبیر کو روئیں عاصم
کام بن بن کے بگڑتے ہیں جہاں جاتے ہیں
57-
میں کون ہوں کیا ہوں یہ بتانا نہیں پڑتا
بن جاتا ہے ماحول بنانا نہیں پڑتا
اب خود وہ سرِ شام پلٹ آتا ہے گھر کو
صحرا سے اُسے ڈھونڈ کے لانا نہیں پڑتا
58-
اب خود وہ مرے حال پہ رو دیتا ہے اکثر
پہلے کی طرح رو کے رُلانا نہیں پڑتا
59-
دَر سے کبھی آئے کبھی دیوار سے آئے
کچھ سانحے گھر میں بڑی رفتار سے آئے
ہم اہلِ جزیرہ ہیں ہمیں کیا کہ یہ طوفان
اِس پار سے آئے ہیں کہ اُس پار سے آئے
60-
دراڑیں پڑ گئیں چہرے پہ کتنی
کہا تو تھا تمہیں اتنا نہ سوچو
61-
اس قدر دل شکستگی کے بعد
مجھ میں جینے کا حوصلہ کیوں ہے
62-
بہت چپ چپ ہیں رونا چاہتے ہیں
ترا دامن بھگونا چاہتے ہیں
بہت امکان ہے بارش کا اور ہم
کھلے آنگن میں سونا چاہتے ہیں
دریچے بند ہی رہنے دو عاصمؔ
ذرا ہم کھل کے رونا چاہتے ہیں
63-
جب آفتاب مرے سر پہ آ گیا تو کھلا
کمال رکھتا ہے سایہ گریز پائی میں
"حباب کے جو برابر کبھی حباب آیا"
کھلا کہ جان بھی جاتی ہے آشنائی میں
64-
یہ سانحہ ہے مگر اتنی سوگواری کیا
تعلقات تو بنتے ہیں ٹوٹ جاتے ہیں
65-
اِسی دُکھ میں نہ جائیں رائگاں ہم
نہ ہونے کے برابر ہیں یہاں ہم
پڑوسی تک نہیں واقف ہمارا
کہاں اِس شہر کی وُسعت کہاں ہم
تصادم آخری رستہ ہے عاصمؔ
جلا بیٹھے ہیں ساری کشتیاں ہم
66-
کسی دیوار سے سر پھوڑ لے گا
یہ پاگل شہر کا عادی نہیں ہے
67-
ہزار لوگ ملے زندگی کی راہوں میں
کسی کو تجھ پہ مقدم نہیں کیا ہم نے
68-
حسن کو آئنہ کرے کوئی
کس طرف چشم وا کرے کوئی
Tags:
لیاقت علی عاصم