کلیات مومن از مومن خاں مومن pdf

کلیات مومن از مومن خاں مومن pdf
محمد مومن خاں 1215ھ (1800ع) میں پیدا ہوئے۔ وفات 1268ھ (1852ع)۔ والد کا نام حکیم غلام نبی خاں ولد نامدار خاں تھا۔ نامدار خاں اور کام دار خاں دو بھائی شاہ عالم کے زمانے میں کشمیر سے آ کر دھلی میں سکونت پزیر ہوئے اور شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے۔ روایت ہے کہ ابتدائی تعلیم شاہ عبدالعزیز صاحب کے مدرسے میں پائی۔ یہ مدرسہ مومن خاں کے مکان سے بہت قریب تھا۔ یوں ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز صاحب سے گہری عقیدت تھی، اس بنا پر بھی ان کے مدرسے میں تعلیم پانے کی روایت عام ہوئی۔ جب بڑے ہوئے تو عربی کی ابتدائی کتابیں شاہ عبدالقادر صاحب سے پڑھیں۔ کریم الدین کی روایت کے مطابق عربی "شرح ملا" تک پڑھی اور فارسی بھی خوب جانتے تھے اور حافظِ قرآن بھی تھے۔ طب جو کہ خاندانی فن تھا، باقاعدہ پڑھی اور مطب میں نسخہ نویسی کی اوار بعد میں نواب فیض محمد والیِ جھجر کے دربار میں تین ماہ تک شاہی طبیب رہے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مومن نے طب سے زیادہ شاعری کو اپنا پیشہ بنایا۔ اس کے علاوہ علم نجوم و رمل میں مہارت حاصل کی، چنانچہ اس کے اشارے ان کے اشعار میں موجود ہیں۔ شطرنج میں شہر کے اچھے ماہرین میں شمار ہوتے تھے۔ موسیقی میں بھی کمال حاصل کیا اور تعویذ نویسی اور عملیات میں بھی دخل تھا۔ یہ بھی پڑھیں: کلیات نظیر از نظیر اکبر آبادی)

شاعری کا مشغلہ اوائل عمر ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ فائق کی تحقیق ہے کہ بارہ برس کی عمر تھی کہ "مثنوی شکایت ستم" 1227ھ لکھی۔ اس میں اپنی شعر گوئی کا ذکر کیا ہے۔ ابتدا میں شاہ نصیر سے اصلاح لی، پھر اپنا انداز خود پیدا کر لیا۔
مومن عاشقانہ طبیعت رکھتے تھے، مزاج میں زود مشتعل جذباتیت تھی۔ شاعری کی ابتدا بچپن ہی سے ہو جانا ذہانت اور شدت جذبہ کا ثبوت ہے۔ انہوں نے اپنی محبت کے جو قصے اپنی مثنویوں میں خود بیان کیے ہیں ان سے طبیعت کی آزادی اور وارفتگی کا حال معلوم ہوتا ہے، لیکن ذہنی طور پر بعض مذہبی عقائد سے خاص دلچسپی ہمیشہ رہی۔ حضرت سید احمد بریلوی کو مہدی دوراں سمجھتے تھے۔ آخری عمر میں نماز روزے کے پابند ہو گئے تھے۔ دھلی کو چھوڑ کر سہارنپور، سہسوان، بدایوں، رامپور، جہانگیر آباد بھی گئے لیکن مستقلاََ دلی کو نہ چھوڑ سکے۔ قصیدے بھی لکھے لیکن مزاج قصیدہ نگاری کے لیے بطور خاص موزوں نہ تھا۔ مثنویات وصف الحال ہیں لیکن مثنوی نگاری میں قصہ پن نہیں پیدا کر سکے، سیدھی سادی سپاٹ رودادِ عشق ہے، بعض جگہ جزئیات نگاری اچھی کی ہے۔ رباعیات بھی لکھی ہیں لیکن ان میں کوئی خاص بات لائق ذکر نہیں ہے۔