شہر میں گھر اٹھائے پھرتے ہیں ۔ لیاقت علی عاصم
شہر میں گھر اٹھائے پھرتے ہیں
حادثے سر اٹھائے پھرتے ہیں
مر گئے جس کے دیکھنے والے
ہم وہ محشر اٹھائے پھرتے ہیں
تیز کیسے چلیں کہ سینے پر
دل سا پتھر اٹھائے پھرتے ہیں
بوچھ اپنا ہے یا پرایا ہے
ہم برابر اٹھائے پھرتے ہیں
نازکانِ چمن کا حال نہ پوچھ
خاک پر سر اٹھائے پھرتے ہیں
عشق وہ نازِ زندگی ہے کہ ہم
ہر قدم پر اٹھائے پھرتے ہیں
آئنہ قتل گاہ ہے دیکھو
عکسِ خنجر اٹھائے پھرتے ہیں
-------
لیاقت علی عاصم
Tags:
لیاقت علی عاصم