آبلہ پا ناول از رضیہ فصیح

آبلہ پا ناول از رضیہ فصیح
آدم جی ایوارڈ یافتہ ناول "آبلہ پا" (1965ء) اردو کے چند اہم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی ناول کے سبب رضیہ فصیح احمد ایک اہم فکشن نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ 

ناول کا موضوع انسانی زندگی کے ایک اہم پہلو کو زیرِ بحث لاتا ہے یعنی کہ بعض اوقات ایک فرد "شخصی عظمت کے حصول" کے لیے کس طرح کی جد و جہد کر سکتا ہے یا یہ کہ اگر عظمت کسی وجہ سے حاصل ہو جائے تو وہ کس طرح اس عظمت کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے لیکن اس ناول کے خاتمہ اور عنوان "آبلہ پا" سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک رومانی ذہن رکھنے والی، لیکن باشعور اور حساس لڑکی کا واسطہ ایک ایسے لڑکے اسد سے پڑتا ہے جو محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتا بلکہ اس لڑکی کو اپنے ماضی ( جس میں اس کا خاندانی پس منظر بھی شامل ہے) سے پیچھا چھڑانے اور معاشرے میں شخصی عظمت کے حصول کے لیے بطور آلہ استعمال کرتا ہے۔ 

"آبلہ پا" کی ایک اہم خصوصیت اس کی دلچسپی ہے۔ ابتداء میں کہیں کہیں مصنفہ کے ہاتھ سے یہ ڈور چھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے لیکن بعد میں بہت سنبھلی ہوئی کیفیت ملتی ہے۔ اس ناول کی ابتدا میں عام رومانی ناولوں کا احساس ہوتا ہے جس کے ہیرو ہیروئین انتہائی خوبصورت ہیں۔ پھر آنکھوں آنکھوں میں محبت کا آغاز ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی بوبی کی موجودگی آئندہ رونما ہونے والی پچیدگیوں کا اشارہ معلوم ہوتی ہے۔ پھر اسد کے کردار کی پچیدگیوں کے زیرِ اثر کہانی بہت جلد دوسرا رخ اختیار کر لیتی ہے اور بہت زود رفتاری سے واقعات کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی چلی جاتی ہیں اور کہانی کا ایک واضح کلائمکس سامنے آ جاتا ہے۔