میراجی کی نظمیں - کلیاتِ میراجی سے انتخاب

میراجی کی نظمیں - کلیاتِ میراجی سے انتخاب

سنجوگ
دن ختم ہوا، دن بِیت چکا،
رفتہ رفتہ ہر نجمِ فلک اس اونچے، نیلے منڈل سے
چوری چوری یوں جھانکتا ہے
جیسے جنگل میں کٹیا کے اِک سیدھے سادے دوارے سے
کوئی تنہا چپ چاپ کھڑا چھپ کر گھر سے باہر دیکھے!
جنگل کی ہر اک ٹہنی نے سبزی چھوڑی، شرما کے چھپی تاریکی میں
اور رنگ برنگے پھولوں کے شعلے کالے کاجل بن کر روپوش ہوئے،
اور بادل کے گھونگٹ کی اوٹ سے ہی تکتے تکتے چنچل چندا کا رُوب بڑھا!
یہ چندا کرشن ۔ ستارے ہیں جھرمٹ برندا کی سکھیوں کا!
اور زہرہ نیلے منڈل کی رادھا بن کر کیوں آئی ہے؟
کیا رادھا کی سندرتا چاند بہاری کے من بھائے گی؟
جنگل کی گھنی گپھاؤں میں جگنو جگمگ جگمگ کرتے، جلتے بجھتے، چنگارے ہیں!
اور جھینگر تال کنارے سے گیتوں کے تیر چلاتے ہیں،
نغموں میں بہتے جاتے ہیں،
لو آدھی رات دُلہن کی طرح شرماتی تھی، اب آہی گئی،
ہر ہستی پر اب نیند کی گہری مستی چھائی --- خاموشی!
کوئل بولی!
اور رات کی اس تاریکی میں ہی دل کو دل سے ملائے ہیں
پریمی پریتم 
ہاں، ہم دونوں


دُور و نزدیک

ترا دل دھڑکتا رہے گا
مِرا دل دھڑکتا رہے گا
مگر دُور دُور!
زمیں پر سہانے سمے آ کے جاتے رہیں گے
یونہی دُور دُور!
ستارے چمکتے رہیں گے
یونہی دُور دُور
ہر اِک شے رہے گی
یونہی دُور دُور
مگر تیری چاہت کا جذبہ،
یہ وحشی سا نغمہ،
رہے گا ہمیشہ
مرے دل کے اندر
مرے پاس پاس۔

۔۔۔۔۔
میرا جی نظمیں | کلیاتِ میراؔ سے انتخاب
(1935ء)



محبت

زرد چہرہ شمع کا ہے اور دھندلی روشنی
راہ میں پھیلی ہوئی،
اک ستونِ آہنیں کے ساتھ استادہ ہوں میں،
اور ہے میری نظر
ایک مرکز پر جمی؛
آہ! اِک جھونکا صبا کا آ گیا
باغ سے پھولوں کی خوشبو اپنے دامن میں لیے

ساری بستی نیند میں بے ہوش ہے
راہ رَو کوئی نہیں،
راہ سب سُونی ہوئی؛
آسماں پر حکمراں ہے شب کی گہری تیرگی،
اور فضا میں خامشی کے سانس کی آواز ہے،
اور ہے میری نظر
ایک مرکز پر جمی،
سامنے
روزنِ دیوار سے
ایک سایہ مجھ کو آتا ہے نظر۔



پردیسی خوشبو

جب اپنی آنکھوں کو بند کرتے ہی جیسے افیون کے نشے میں
کوئی تخیل کے خواب دیکھے،
میں نوش کرتا ہوں تیرے سینے سے ایسی نکہت کے مست جھونکے
کہ دل کے جذبات جن سے مچلیں:
تو میری آنکھیں یہ دیکھتی ہیں
کہ اک جہنم کی تیز ندی ہے اور اگنی رُخِ شفق کی
جو ایک پل بھی نہیں ہے رُکتی!

اور اک جزیرہ کہ جس کے اندر ہے غیر فطری نظامِ قدرت
اور اس پہ اک بوجھ بن گئے ہیں وہ پھل جو کومل ہیں اور میٹھے؛
وہاں پہ مدوں کے جسم مہمان بنتے ہیں اُن کی عورتوں کے،
اور اصل میں اس سے مختلف ہے دکھائی جو دیتی ہے ہر عورت!

رسیلے گھونگھٹ کی گرمجوشی کی سمت کرتے ہیں رہنمائی
وہ تیری نکہت کے مست جھونکے
اور ایک ساحل کی کاٹ کے اوٹ میں چھپے دیتے ہیں دکھائی
مجھے کئی بادبان بجرے!
چھپے ہوئے ہیں وہاں تنگ آ کے سارے ساگر کی آندھیوں سے!
ہے میرے دل کی بھی ایسی حالت شبانہ عشرت کی الجھنوں سے!

یہ تیرے سینے کی مست نکہت مجھے خبر کیا کہ کس طرح سے
مرے دل و روح میں جگاتی ہے بہجت انگیز رس کے سپنے،
کہ جیسے ملاح گیت گائے!



حُسنِ رفتہ کی یاد میں

کئی دن کئی سال صدیاں ہوئیں جب
یہ دھرتی چمکتی ہوئی ایک جنت تھی گویا!
جب انسان پھرتے تھے رستوں پہ مست اور شاداں،
کہ جیسے ہوں وہ دیوتاؤں کے آقا!
ندی کے کنارے اکیلی سی کٹیا میں بھگوان رہتے تھے تنہا!

اسی پہلے بیتے پرانے سمے میں
مجھے حسن نے روپ اپنا دکھایا
مری لڑکھڑاتی نگاہوں میں آ کر،
مرے دل میں سو آرزوؤں کو لا کر،
چھچلتی ہوئی مختصر سی نظر سے،
مرے دل کو دیوانہ کر ڈالا اپنے اثر سے!

یونہی سارا دن ڈھونڈتا ہی رہا میں
مگر میں نے اس کو نہ پایا،
سیہ چشم انجان جس نے مجھے اک اشارے سے اپنا بنایا!

ہر اک چیز میں، آہ! ہر شے میں موجود تھی وہ،
ہر اک چیز میں جلوہ افشاں تھی ہر سو،
اُسی کی ہر اک چیز سے بہتی آتی تھی خوشبو،
ہر اک چیز میں تھی،
ہوا میں، ندی میں،
ہر اک پھول میں اور کلی میں
ہرے گھاس کی سادگی میں
ہر اک چیز میں، آہ! ہر شے میں محدود تھی وہ،
مگر آج تک بھید اس کا نہیں میں نے پایا



بیراگ

آہیں بھرو اب، آہیں بھرو سب، آہیں بھرو!
آنسو بہاؤ، روتے جاؤ، آہیں بھرو!
سورج موت کی نیند میں ہے اور ہر شے ہے آکاش کی ایسے
جیسے دُھند چِتا سے اُبلے!
جستجو روزنِ دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی،
میں ہوں آزاد، مجھے فکر نہیں ہے کوئی،
ایک گھنگھور سکوں، ایک کڑی تنہائی،
مِرا اندوختہ ہے۔



بے چارا، بے کس

مرے سامنے اور مرے آس پاس، لا انتہا ہے فضائے جہاں
پلٹ کر جو دیکھوں تو ڈر جاؤں میں
فضا کا ہے احساس ہر سُو رواں
ڈراتی ہے حیران کر کے مجھے
کہ سطح سمندر پہ کشتی کوئی
ہو جیسے کسی آدمی کو لیے،
اور اس کو سمندر کی بیباک موجیں پریشاں کرتی ہوں تنہائی میں،
سہارا نہ ظاہر ہو کوئی جہاں!

بساطِ جہاں پر اکیلا ہوں میں
اسی فکر میں بس الجھتا ہوں میں
کہ اب کون سی چال چلتا ہوں میں!
مرے ہاتھ لرزاں ہیں جیسے خزاں میں ہوں دوشِ ہوا پر کئی پتیاں!

سنبھالا جو خود یہ احساس تھا،
بہاتی ہے اک بادِ صرصر مجھے
اُڑاتی ہوئی جا رہی ہے کدھر،
نہیں مجھ کو معلوم اور کس لیے؟
نہیں مجھ کو معلوم کچھ بھی نہیں!

ہے عظمت، جسامت مرے آس پاس،
میں درجہ بے نام اور ہیچ ہوں
اگر فاصلہ دو قدم طے کروں،
تو گم گشتہ دو بار ہوتا ہوں

میں کیسے پھر اس دل کو سمجھاؤں گا؟
کہ "ممکن ہے یہ، میں کروں گا یہی"!
میں بس ایک ذرہ ہوں، تنکا ہوں ایک،
اس آندھی میں ہر سمت ہے جو رواں!



ریل میں
۔
گجرات کے ہو؟ کیا تم سے کہوں، پردیسی کو دھتکارتے ہیں اس دیس میں
جس کے تم ہو امیں
انگشت سے خاتم دور ہوئی، کیا تم سے کہوں، اب پہلی چمک باقی ہی نہیں، اب
ٹوٹ چکا وہ نقشِ حسیں، اوجھل ہے نگاہوں سے وہ نگیں،
پربت سے دھارا بہتی ہے، ویسے ہی بہا ہے نورِ جبیں
دل کا امرت، آنکھوں کا لہو

یوں رستے میں گھل جاتے ہیں دو رنگ نہیں کچھ جن کو خبر
جب چاند ڈھلے، جب تاروں کا آکاش سے مٹ جائے منظر
کالی راتوں سے بڑھ کے کہیں کالا دن کیسے ہوگا بسر؟
تم گھلتے ہو، میں گھل بھی چکا، اب آنکھ میں کوئی نہیں ہے اثر،
تم دیکھتے ہو، میں دیکھتا ہوں اور کہتی ہے یہ میری نظر
جب راتیں تھیں، جب باتیں تھیں، اور ایک ہی دھیان تھا، میں اور تُو
بے کار یہ باتیں کرتے ہیں، کیوں پوچھتے ہیں گجرات کے ہو؟
کیا پانی بات کے دامن سے پونچھیں گے آنکھ کے آنسو کو؟
جو ہونی تھی وہ ہو بھی چکی اب چاہے ہنسو، چاہے رولو
بس یونہی کبھی آ جاتی ہے گھلتی گھلتی میٹھی خوشبو
آنکھوں کی چمک، بازو کی دمک ایسے ہے جیسے دورِ رواں,  باقی ہی نہیں
کچھ اُن کا نشاں
لہنگے کا جھولا ٹوٹ گیا، اب سوکھی ہے وہ جوئے رواں
جس میں بہتے بہتے میں نے دیکھا تھا سماں
اُس چاندنی کا جو آتی ہے جیسے سورج کی کرن سے دھندلکا
ہو پنہاں
جیسے جنگل میں پھسلتے پتوں پر ہو جائے نگاہوں سے اوجھل کوئی آہو!

چھیڑ
۔
بہت ہی نرم ہو تم 
بہت ہی گرم ہو تم
بڑے بے شرم ہو تم
نہ شرماؤ، سنو تو
ہٹو جاؤ سنو تو
جو ہم کہتے ہیں کیجے
جھجک رہنے دیجے
مرے اللہ ۔۔ لیجے

10۔
خدا
۔
میں نے کب دیکھا تجھے روحِِ اَبد
ان گنت گہرے خیالوں میں ہے تیرا مَرقد
صبح کا، شام کا نظارہ ہے
ذوقِ نظارہ نہیں چشمِ گداگر کو مگر

میں نے کب جانا تجھے روحِ اَبد
راگ ہے تُو، پہ مجھے ذوقِ سماعت کب ہے
مادیت کا ہے مرہون مرا ذہن مجھے
چُھو کے معلوم یہ ہو سکتا ہے شیریں ہے ثمر
اور جب پھول کھلے اس کی مہک اُڑتی ہے
اپنی ہی آنکھ ہے اور اپنی سمجھ، کس کو کہیں ۔۔ تُو مجرم

میں نے کب سمجھا تجھے روحِ اَبد
خشک مٹی تھی مگر چشمِ زدن میں جاگی
اُسے بے تاب ہوا لے کے اُڑی
پھر کنارا نہ رہا، کوئی کنارا نہ رہا
بن گیا عرصہء آفاق نشانِ منزل
زور سے گھومتے پہیے کی طرح
ان گنت گہرے خیال ایک ہوئے
ایک آئینہ بنا
جس میں ہر شخص کو اپنی تصویر
اپنے ہی رنگ میں ہر لمحہ دکھائی دیتی تھی
ایک لمحے  کے لیے
بن گیا عرصہء آفاق نشانِ منزل

میں نے دیکھا ہے تجھے، روحِ ابد
ایک تصویر ہے شبرنگ مہیب
درِ معبد پہ لرز اٹھے ہر ایک کے پاؤں
ہاتھ ملتے ہوئے پیشانی تک آئے دونوں
خوف سے ایک ہوئے

میں تجھے جان گیا روحِ ابد
تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں
(چشمِ ظاہر کے لیے خوف کا سنگیں مرقد)
اور مرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

کلیاتِ میراجی سے انتخاب