آغا حشر کاشمیری کی غزلیں اور اشعار

آغا حشر کاشمیری کی غزلیں اور اشعار

عاشقِ کاکل ہوا کیا حشرؔ، آفت میں پھنسا
دل بلا میں ہے، بلا گیسو میں، گیسو دل میں ہے

دم بدم یادِ بتِ ماہِ لقا آتی ہے
ساقیا جلد پِلا مے کہ گھٹا آتی ہے

واہ رے جذبہء الفت کہ کہا لیلیٰ نے
آج ہر سمت سے مجنوں کی صدا آتی ہے

حشرؔ دل دوں بھی تو کس بت کو دوں، کیا دیکھ کے دوں
نہ وہ شوخی، نہ شرارت نہ ادا آتی ہے

بات کا پاس حسینوں کو نہیں ہے اے حشرؔ
خوب دیکھا انہیں، پابندِ وفا کم نکلے

حشرؔ پھر بھی دے دعا اُن کی بہارِ حسن کو
وہ پھلیں پھولیں، تری حسرت نہ بَر آئی تو کیا

حشرؔ یہ کالی گھٹائیں اور توبہ کا خیال
تم یہیں بیٹھے رہو، میں سوئے میخانہ چلا

غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آ ہی گیا
میری جانب سے ترے دل میں غبار آ ہی گیا

جانتا تھا کھا رہا ہے بے وفا جھوٹی قسم
سادگی دیکھو کہ پھر بھی اعتبار آ ہی گیا

پوچھنے والوں سے گو میں نے چھپایا دل کا راز
پھر بھی تیرا نام لب پر ایک بار آ ہی گیا

تو نہ آیا او وفا دشمن، تو کیا ہم مر گئے
چند دن تڑپا کیے، آخر قرار آ ہی گیا

جی میں تھا اے حشرؔ اُس سے اب نہ بولیں گے کبھی
سامنے جب بے وفا آیا تو پیار آ ہی گیا

اچھا ہے کسی طرح کٹے بھی شبِ فرقت
اے دل میں تجھے تو مجھے الزام دیے جا

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اِس دعا کے بعد

وہ زمزمے جو روح کو کرتے ہیں مست حشرؔ
 پھر سن رہے ہیں عرفیِؔ رنگیں نوا کے بعد

10۔
تا کجا شورشِ فریاد نہ آئے لب تک
صبر اک شے ہے مگر پھر بھی کہاں تک، کب تک

جلوہ آنکھوں کو دکھاؤ گے یہ مانا میں نے
پر یہ رونا ہے کہ آنکھیں ہی نہ ہوں گی تب تک

رحم کر دردِ جگر! جان نکل جائے گی
یوں ہی آئے گا جو کھنچ کھنچ کے کلیجا لب تک

مر گیا حشرؔ تو اس کی نہیں حیرت مجھ کو
میں تو حیران ہوں زندہ رہا کیوں کر اب تک

11۔
دمِ آخر ہجومِ آرزو ہے، تم بھی آ جاؤ
ہم اس کو زندگی کی آخری محفل سمجھتے ہیں

12۔
قصہء عیش مصیبت میں بس اے حشرؔ نہ پوچھ
یہ وہ دل چسپ کہانی ہے جو اب یاد نہیں

13۔
کوئی بتائے کہ گزرے ہوئے خوشی کے دن
کہاں ملیں گے، انہیں ڈھونڈنے اگر جائیں

وہ بد نصیب ہوں گر دام اورقفس کی طرف
میں خود نہ جاؤں تو اُڑ اُڑ کے بال و پَر جائیں

14۔
یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے! کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں

ایک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں

جس طرح اوپر سے نیچے کو گرے پانی کی دھار
اس کے قدموں کی طرف یوں ہی بہا جاتا ہوں میں

او وفا نا آشنا! کب تک سنوں تیرا گلہ
بے وفا کہتے ہیں تجھ کو اور شرماتا ہوں میں

حشرؔ میری شعر گوئی ہے فقط فریادِ شوق
اپنا غم دل کی زباں میں دل کو سمجھاتا ہوں میں

15۔
ساقی تیری شراب میں بھی کیفیت سہی
اُس چشمِ بادہ ریز کی مستی مگر کہاں

16۔
پانی کی عوض مستیِ رنگیں ہے برستی
پر اُتنے ہی ٹکڑے پہ کہ میخانہ جہاں ہو

18۔
نکہتِ ساغرِ گل بن کے اڑا جاتا ہوں
لیے جاتا ہے کہاں بادہء سرجوش مجھے

ہچکیاں آج چلی آتی ہیں پیہم اے حشرؔ
یاد کرتا ہے مرا زُود فراموش مجھے

19۔
غیروں کی بزمِ عیش سے فرصت اُسے کہاں
بے درد کیوں خبر لے کسی بے قرار کی

اے حشرؔ دیکھنا تو یہ ہے چودھویں کا چاند
یا آسماں کے ہاتھ میں تصویر یاد کی

20۔
مے رنگیں تھا سادہ پانی بھی
ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی