ابتذال کے معنی اور امثال
ابتذال VULGARITY(ذلیل ہونا، سطحی پن، عامیانہ پن) ایک شعری و نثری اصطلاح ہے۔
کلام میں غیر مہذب، سُوقیانہ پن اور بازاری الفاظ لانا ایسا کلام کہنا جس کا مضمون شائستگی سے بعید ہو۔ ابتذال کہلاتا ہے۔
ابتذال دراصل اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شاعر ایسے الفاظ شاعری میں لائے جس سے سامع کے ذہن میں احساسِ رکاکت یا تنفر پیدا ہو۔
پیڈت برج موہن کیفی لکھتے ہیں:
غیر ثقہ اور سوقیانہ الفاظ و مضامین کلام میں لانا عوامیت اور رکاکت پیدا کرتا ہے اس سے کلام مبتذل ہو جاتا ہے۔{alertInfo}
شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
ابتذال کے معنی عام طور پر یہ سمجھے جاتے ہیں کہ جو الفاظ عام لوگ استعمال کرتے ہیں وہ مبتذل ہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ابتذال کا معیار مذاق صحیح کے سوا اور کئی چیز نہیں ۔۔۔۔ ابتذال کی صاف اور بین مثال نظیرؔ اکبر آبادی کا کلام ہے۔ اگر یہ ممیز نہ ہوتا تو سادگی اور صفائی میں میر انیسؔ یا میر تقی میرؔ سے ٹکر کھاتا۔ (موازنۂ انیس و دبیر:شبلیؔ نعمانی) {alertInfo}
کیا آسمان پھاڑ کے تھگلی لگائے گی
صاحب ابھر چلی ہے بہت گات آپ کی
(رند لکھنوی)
یار ماری کے سبب کوہ کن و وامق و قیس
بچ کے آیا نہ کوئی عشق کے میدان سے ہنوز
(مصحفی)
Tags:
ابتذال