گھڑی بھر کی رفاقت اسد محمد خاں
مسافرت میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب
گھوڑا اپنے سوار کی راسیں سنبھال لیتا ہے
(ایک طبع زاد کہاوت)
مسلسل دو دن اور دو راتیں گھوڑے کی پیٹھ پر گزاری تھیں۔ انتہا درجے کی تھکن اور تشویش میں سَنبھل کا حاکم عیسٰی خان ککبُور سروانی بنگالے پہنچا تھا کہ سلطانِ ہند حضرت شیر شاہ سوری بنگالے میں صاحبِ فراش تھے۔
لکھنوتی کی شہر پناہ کے باہر قلعہ دار چِنتاؔمنی گوڑ ایک تازہ دم گھوڑا اور بعض اچھی خبریں لیے موجود تھا۔ سب سے اچھی خبر یہ تھی کہ سلطان شیر شاہ صحتیاب ہو رہے ہیں، انہوں نے بستر سے اٹھ کر دالان میں ٹہلنا شروع کر دیا ہے۔ عیسٰی خاں اس شخص چنتا منی کو دیکھ کر ہمیشہ خوش ہوتا تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ قلعہ دار چنتامنی بے ضرورت کلام اور سلام نہیں کرتا تھا اور اچھی اور مفید بات پہنچانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔
عیسٰی خان نے اپنے رفیقوں کو قلعہ دار کی پُر تکلف میزبانی کے حوالے کیا اور خود قلعہ دار کے بڑھائے ہوئے خوان سے ایک بڑا سُرخ سیب اٹھا کر اسے اپنے مضبوط دانتوں سے کاٹتا، گھوڑے کو ایڑ دیتا شہر میں داخل ہو گیا۔ لکھنوتی آتے ہوئے اس کے ہمراہیوں میں سے کسی نے تجویز پیش کی کہ اقامت گاہِ سلطانی کے راستے میں کسی تُرک زادے کا حمام ہے، اگر مسندِ عالی عیسٰی خان مناسب خیال فرمائیں تو ہم میں سے کوئی آگے بڑھ کر حمام تیار کرادے ۔ غسل کر کے تازہ دم ہو جائیے گا پھر اقامتِ گاہ سلطانی پہنچ کر خود صدرالصدور حسن علی خان یا خادمِ خاص شناور غِلزئی کی زبان سے یا اگر شہزاد عادل خان سوری موجود ہوئے تو ان کی زبان سے سلطانِ والا جاہ کی خیریت سنے گا۔ غسل اور لباس کی تبدیلی اور کھانا پینا سب کچھ بعد میں ہوگا۔
سَنبھل کا حاکم مسندِ عالی عیسٰی خاں ککبور سروانی شیر شاہی دربار کا حُجاب دار، میرِ توزک، اور سلطان کا تنبول دار تھا۔ وہ سلطان کو دربار میں پان پیش کرتا تھا ۔۔۔ یہ خود اپنی جگہ ایک جلیل القدر اعزاز تھا۔ اسے پانچ ہزار سواروں کی سالاری اور اہلِ عیال کی پرورش کے لیے دو پرگنے عطا ہوئے تھے۔ عیسٰی خان بلا کا شمیر زن اور قیامت کا شاہسوار تھا۔
عیسٰی خان کو سلطنت کے پہلے وکیل، یا وزیر کا رُتبہ ملا تھا جس کا وہ بجا طور پر اہل تھا۔ عزت مآب مہمانوں، سرداروں، والیوں، حاکموں، شاہوں کو روبکاریِ سرکار میں پیش کرنا، ان کو ان کے مراتب سے دربار میں کُرسی نشست اور اعزاز فراہم کرنا، بہ وقتِ ضرورت خلعت و انعام و سند مہیا کرنا، عیسٰی خان کے فرائض میں شامل تھا۔ سلطان اور مملکت کا وفادار رہنا عیسٰی خان کے فرائض میں شامل تھا اور سلطان سے محبت کرنا بھی۔ مگر کسی سے محبت کرنا کسی کے فرائض میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟ عیسٰی خان نے سن رکھا تھا کہ محبت کا درجہ فرض سے کہیں زیادہ رفیع اور محترم ہے۔ مگر عیسٰی خان اور حجاب دار خود رفیع اور محترم تھا اور اپنے بادشاہ سے محبت کرتا تھا۔
شاید بہت دن تک درباروں سے وابستہ رہنے کی وجہ سے ایک کمزوری ضرور عیسٰی خاں میں در آئی تھی۔ وہ محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ جب سلطان کے لیے اس کی محبت ظاہر ہو تو وہ ان کے ملاحظے میں بھی آئے۔ اس کی تازگی و رعنائی ویرانے میں کھلتے پھول کی طرح ہوا کا رزق نہ بن جائے۔
اِسی لیے لکھنوتی میں داخل ہوتے ہوئے وہ گرد و غبار اور تھکن اور تشویش میں اَٹا ہوا سیدھا اقامت گاہِ سلطانی جانا چاہتا تھا تاکہ شیر شاہ سوری کے قریب کے یہ تین آدمی، حسن علی خان، شناور غِلزئی اور شہزاد عادل اسے سلطانِ والا جاہ کسی دریچے سے ایوان کے صحن میں نظر دوڑاتے ہوئے خود ملاحظہ کر لیں تو سبحان اللہ! اُس کا یہ تکلیف دہ طولانی سفر باثمر ہو جائے۔
قلعہ دار چنتامنی گوڑ نے یہ خبر دی تھی کہ سلطان شیر شاہ نے فیصلہ کیا ہے کہ پرگنہ شاہ آباد کا گاؤں ناہ والی، جو تختِ دہلی پر بیٹھنے کے بعد سلطان نے خود عیسٰی خان کو بے طلب بخش دیا تھا، اب عیسٰی خان سے لے کر شہزادہ عادؔل خان کو عطا کیا جائے گا۔
یہ خبر سن کر عیسٰی خان نے خود کو سمجھایا تھا کہ پنج ہزار سالاری، سنبھل سرکار کی حاکمی، حجاب داری، تنبول داری، معتمدی اور سرداری کے ہوتے اور بال بچوں اور وابستگان کی پرورش کے لیے دو پرگنوں کی آمدنی کے موجود رہتے اس ایک گاؤں کے سندِ جاگیر سے نکل جانے سے کون سی قیامت آ جائے گی۔ نہیں، عیسٰی خان کے مرتبے اور آمدنی میں ایک گاؤں کے چلے جانے سے کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ ہاں، احسان مندی کی ایک روایت جو شیر شاہ سُوری نے ہندوستان کا تخت سنبھالتے ہی قائم کرنا چاہی تھی۔ درمیان سے کٹ جائے گی، اور عیسٰی خان جو شیر شاہی دربار کے دستور اور روایات کا پاسدار تھا۔ ایک روایت کے اس طرح منقطع ہو جانے سے اُداس تھا۔
عیسٰی خان بڑے باپ کا بیٹا تھا مگر یہ بات وہ کھل کر نہیں کہہ سکتا تھا اِس لیے کہ شیر شاہ سُوری کے دربار میں اگر قبیلوں کے سرداروں کو شوکت اور عروج حاصل ہوا تھا تو خادموں خانہ زاردوں کی اولاد بھی عالی مرتبت ہو گئی تھی اور وہ جو آبائی علاقے رؤہ میں حجروں سے اٹھتے وقت سرداروں ، خانزادوں کی دستاریں دونوں ہاتھوں پر رکھ کر انہیں پیش کرتے تھے اور بدھنے بھر بھر کر انہیں وضو کراتے تھے اور ان کے مرکبوں کی راسیں تھامے کھڑے رہتے تھے وہ آج قُلمروِ ہند میں ان کے برابر بیٹھتے ہیں اور واللہ! ان کے قریب سے گھوڑا نکال لے جاتے ہیں۔ مسندِ عالی خواص خان کو دیکھو، سلطان کے خادم ملک سکھا کا بیٹا ہے۔ اللہ نے ۔۔ اور سلطان نے ۔۔۔۔ اِسے کیا دبدبہ و شکوہ عطا کیا ہے ۔
یہ نہیں کہ میں کسی سے اس کے عروج کی وجہ سے حسد کرتا ہوں۔ مجھے میرے خدا نے اور میرے بادشاہ نے بہت دے رکھا ہے۔ اور حسد وہ کرے جس نے شوکت و مرتبہ اِس نسل کے سِوا کبھی دیکھا نہ ہو۔ میں خانِ اعظم عمر خاں ککبور سروانی کا بیٹا ہوں جسے شیر شاہ سے پہلے سلطان بہلول لودھی نے عزت و شہرت اور خطاب و جاگیر سے نوازا تھا۔ وہ میرا باپ مسندِ عالیؔ عمر خان ہی تو تھا جس نے فرید خان سُوری ۔۔۔ اُس وقت سلطان شیر شاہ، فرید خان ہی تھے ۔۔۔ تو فرید خان سُوری کے باپ میاں حسنؔ خان کو شاہ آباد پرگنے کا یہ گاؤں ناہ والی جاگیر میں دیا تھا اور خود وہ میرا باپ خانِ اعظم عمر خان تھا جس نے بارہ سال کے لڑکے فرید خان کو راسی گاؤں میں بلہو نام کی مَزرع عطا کی تھی اور کہا تھا کہ ابھی تُو نَو عمر ہے جب اپنی عمر کو پہنچے گا تو تجھے ملازمت بھی دُوں گا اور تُو کیوں کہ اِس وقت اپنے باپ کے ساتھ آیا ہے اور ملازمت طلب کرتا ہے اس لیے تالیفِ قلب کے لیے بَلہُو کی یہ مزرع تجھے عطا کرتا ہوں اور چنتامنی گوڑ کہتا ہے کہ اب وہی گاؤں واپس لیا جا رہا ہے جو سلطانِ عادل شیر شاہ سُوری نے تختِ دلی پر متمکن ہوتے وقت بے طلب مجھے اپنے محسن اور بخشندہ کے بیٹے کو بخش دیا تھا تاکہ احسان مندی کی ایک روایت سُوری خانوادے سے جاری ہو اور ککبور سروانیوں کی تا قیامِ قیامت یہ احساس گرم و سرشار رکھے کہ ہم نے کبھی سُوری حسن خان کو یہی ناہ والی گاؤں ازارہِ پرورش عطا کیا تھا کس لیے کہ جب سُوری ضرورت مند تھے۔ پھر ایک احسان شناس سُوری شیر شاہ نے وہ گاؤں عیسٰی خان ککبور سروانی کو جاگیر میں دے کر گویا احسان مندی کی ایک روایت کا آغاز کیا تھا اور افسوس وہ روایت اب منقطع ہونے کو ہے۔ قلعہ دار چنتامنی کہتا تھا ۔۔۔۔۔۔
اور یہاں قلعہ دار کے پیش کیے ہوئے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی۔ عیسٰی خان نے راسیں کھینچ لیں۔ گھوڑے سے اُتر آیا اور رستہ چھوڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ گھوڑے کی راسیں دُھول میں گرائے ہوئے پُختہ عمر کا ایک وہیلہ سردار سڑک کے کنارے سر جھکائے کھڑا ہے ۔
پناہ بہ خدا! کیا یہ عیسٰی خان تھا جو اتنی پست سوچ سوچتا ہوا چلا آ رہا تھا؟ یہ سَنبھل کا حاکم، سُوری دربار کا حُجاب دار، مملکت کا توزک، اپنے سلطان کا تنبول دار، کیا یہ پانچ ہزار شیر شاہی سواروں کا سالار ہے جو انتی گراوٹ کے ساتھ، ایسی رُسوا کن باتیں اور کم ظرف خیال پال رہا ہے؟ اور ناموس باختہ عورتوں کی طرح خیال ہی خیال میں اپنے رفیقوں پر طعنہ زنی کرتا اور منافقت سوچتا چلا آتا ہے؟ نہیں! عُمر خان جنت مکانی کا بیٹا ایسی اُتھلی باتیں کیسے سوچ سکتا ہے۔
تف ہے مجھ پر۔ نفریں ہے مجھ سوار پر اور اس نحوست آثار گھوڑ پر۔ عیسٰی خان نے ایک ٹھنڈے غصے میں لرزتے ہوئے زین کا تسمہ کھول کر، گھوڑے کا ساز اور زین اور زین پوش زمین پر گرا دیا اور اپنے نیام کو چوڑائی کے رُخ سے جریب کی طرح گھوڑے کے پُٹھے پر مار کر اُسے بوجھ کھینچنے والے جانور کی طرح بازار کی طرف ہنکا دیا اور چیخ کر کہا۔ "تُف ہے تجھ پر ! تیری سواری نے مجھے عیسٰی خان نہ رہنے دیا۔ او لعنتی جانور، تیری نصف ساعت کی رفاقت نے مجھے چوہے جیسا خود غرض اور کمینہ بنا دیا۔ تُف ہے تجھ پر!"
اور اس طرح چِنتامنی گوڑ کے پیش کیے ہوئے گھوڑے کو بے آبرو کر کے سڑک پر ہنکا دینے کے بعد ، سَنبھل کا حاکم عیسٰی خان ککبور سروانی، گرد اور خِفت میں اَٹا خود اپنے احتساب سے نڈھال اقامت گاہِ سلطانی کی طرح پیادہ پا روانہ ہو گیا۔
(بُرجِ خموشاں سے)
Tags:
اسد محمد خاں