غبارِ ایام سے چند غزلوں اور نظموں کا انتخاب

غبارِ ایام سے چند غزلوں اور نظموں کا انتخاب

عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا

دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اک روز گاتے رہے
پائلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے ہوئے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے
راستے میں کھڑے ان کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چپ چاپ آنسو بہاتے رہے

لَوٹ کر آکے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
رَسن در گلو، پابجولاں ہمیں
اسی قافلے میں کشاں لے چلا

(بیروت جولائی 1981ء)
۔

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

نہ تن میں خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو  واجب ہے بے وضو ہی سہی

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہء ساغر تو ہاؤ ہُو ہی سہی

گر انتظار کٹھن ہے تو تب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی

دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیضؔ ذکرِ وطن اپنے رُو برو ہی سہی

لاہور، فروری 1982ء
-

گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا

گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دِوانے
ہر شخص کا صد چاک لَبادہ تو نہیں تھا

منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
ناداں ہی سہی، ایسا بھی سادہ تو نہیں تھا

تھک کر یونہی پل بھر کے لیے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا

واعظ سے رہ و رسم رہی رند سے صحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا

لاہور۔ فروری 1983ء
-

اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سُورج، نہ اندھیرا نہ سویرا

آنکھوں کےدریچوں پہ کسی حسن کی شبنم
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا

ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اِک آخری پھیرا

شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا

اِک بیر، نہ اِک مہر، نہ اِک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
ــ

مانا کہ یہ سُنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط ایک گھڑی ہے
ہمت کرو، جینے کو وت اک عمر پڑی ہے

میو ہسپتال-لاہور 4 مارچ 1982ء
۔

ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول

آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول

ترکِ اُلفت کے دشت سے چُن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول

تیری دہلیز پر سجا آئے
پھر تری یاد پر چڑھا آئے

باندھ کر آرزو کے پلے میں 
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول