ولی دکنی کی حیات اور شاعری کی خصوصیات

ولی محمد نام اور ولی تخلص۔ ان کے اجداد گجرات سے ہجرت کر کے دکن گئے تھے۔ ولی 20 سال تک تحصیلِ علوم کرتے رہے، بعد ازاں احمد آباد گئے جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا اور شاہ وجیہہ الدین کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ کچھ دنوں بعد اپنے وطن آ کر شعر و شاعری شروع کی۔ ولی دو دفعہ دلی گئے وہاں شاہ سعداللہ گلشن سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ایما سے دکنی کے بجائے ریختہ میں شعر کہنے لگے۔ ان کا دوسرا محمد شاہ کے عہد میں ہوا۔ اس سفر میں ولی اپنے ساتھ دیوانِ ریختہ لائے جو بہت مقبول ہوا۔ ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ وفات 1720ء اور 1725ء کے درمیاں ہوئی۔   غزل گوئی کے اعتبار سے ولی اول درجے کے شاعر تھے۔ جو غزل گوئی کے تقاضے تھے ان سے ولی کو پوری طرح اطلاع حاصل تھی چنانچہ غزل گوئی میں بیشتر شاعری کا داخلی پہلو پیشِ نظر رکھتے ہیں اس لیے ان کی غزل سرائی پُر تاثیر نظر آتی ہے۔   ولی کے کلام میں دردؔ، سوداؔ، میرؔ، مصحفی، ذوقؔ، ناسخؔ، آتشؔ سب کے رنگ بکثرت موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر قوی الدماغ شاعر تھے جو ہر نوع کے کلام پر قدرت تامہ رکھتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ما بعد کے جتنے متغزلین موجد کسی طرز کے کہلاتے ہیں در حقیقت اس پیرِ طریقت کے مرید ہیں۔   منتخب اشعار: چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت جا تماشا دیکھ اُس رخسار کا  پھر مری خبر لینے وو صیاد نہ آیا شاید کہ مرا حال اُسے یاد نہ آیا  ایسا بسا ہے آ کر تیرا خیال جیو میں مشکل ہے جیو سوں تجھ کو اب امتیاز کرنا  زندگی جامِ عیش ہے لیکن فائدہ کیا اگر مدام نہیں  ولی تجھ شعر کوں سنتے ہوئے ہیں مست اہلِ دل اثر ہے شعر میں تیرے شرابِ پرتگالی کا
Wali Dakkani Biography & Works

ولی محمد نام اور ولی تخلص۔ ان کے اجداد گجرات سے ہجرت کر کے دکن گئے تھے۔ ولی 20 سال تک تحصیلِ علوم کرتے رہے، بعد ازاں احمد آباد گئے جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا اور شاہ وجیہہ الدین کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ کچھ دنوں بعد اپنے وطن آ کر شعر و شاعری شروع کی۔ ولی دو دفعہ دلی گئے وہاں شاہ سعداللہ گلشن سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ایما سے دکنی کے بجائے ریختہ میں شعر کہنے لگے۔ ان کا دوسرا محمد شاہ کے عہد میں ہوا۔ اس سفر میں ولی اپنے ساتھ دیوانِ ریختہ لائے جو بہت مقبول ہوا۔ ولی کو اردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا ہے۔ وفات 1720ء اور 1725ء کے درمیاں ہوئی۔ 

غزل گوئی کے اعتبار سے ولی اول درجے کے شاعر تھے۔ جو غزل گوئی کے تقاضے تھے ان سے ولی کو پوری طرح اطلاع حاصل تھی چنانچہ غزل گوئی میں بیشتر شاعری کا داخلی پہلو پیشِ نظر رکھتے ہیں اس لیے ان کی غزل سرائی پُر تاثیر نظر آتی ہے۔ 

ولی کے کلام میں دردؔ، سوداؔ، میرؔ، مصحفی، ذوقؔ، ناسخؔ، آتشؔ سب کے رنگ بکثرت موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر قوی الدماغ شاعر تھے جو ہر نوع کے کلام پر قدرت تامہ رکھتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ما بعد کے جتنے متغزلین موجد کسی طرز کے کہلاتے ہیں در حقیقت اس پیرِ طریقت کے مرید ہیں۔ 

منتخب اشعار:
چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت
جا تماشا دیکھ اُس رخسار کا

پھر مری خبر لینے وو صیاد نہ آیا
شاید کہ مرا حال اُسے یاد نہ آیا

ایسا بسا ہے آ کر تیرا خیال جیو میں
مشکل ہے جیو سوں تجھ کو اب امتیاز کرنا

زندگی جامِ عیش ہے لیکن
فائدہ کیا اگر مدام نہیں

ولی تجھ شعر کوں سنتے ہوئے ہیں مست اہلِ دل
اثر ہے شعر میں تیرے شرابِ پرتگالی کا

اے ولیؔ شتاب چل کے تماشے کی بات
بیٹھا ہے نکل ماہتاب آفتاب میں