دستِ تہِ سنگ کی غزلیں از فیض احمد فیض

دستِ تہِ سنگ کی غزلیں از فیض احمد فیض
دستِ تہِ سنگ
۔۔۔۔
میخانوں کی رونق ہیں، کبھی خانقہوں کی
اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دلداری واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے

پیکنگ
۔۔۔
یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے
دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے
میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال
میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گلگوں
میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری
میرے مقدر میں ہے معجزۂ کُن فَیَکُوں
۔۔۔۔
جشن کا دن
جنُوں کی یاد مناؤ کہ جشن کا دن ہے
صلیب و دار سجاؤ کہ جشن کا دن ہے
طرب کی بزم ہے بدلو دِلوں کے پیراہن
جگر کے چاک سِلاؤ کہ جشن کا دن ہے
تنگ مزاج ہے ساقی نہ رنگِ مَے دیکھو
بھرے جو شیشہ، چڑھاؤ جشن کا دن ہے
تمیزِ رہبر و رہزن کرو نہ آج کے دن
ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ جشن کا دن ہے
ہے انتظارِ ملامت میں ناصحوں کا ہجوم
نظر سنبھال کے جاؤ کہ جشن کا دن ہے
وہ شورشِ غمِ دل جس کی لے نہیں کوئی
غزل کی دھُن میں سُناؤ کہ جشن کا دن ہے
۔۔۔
آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
منتظرِ بیٹھے ہیں ہم دونوں کی مہتاب اُبھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
۔۔۔۔
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سُلگاؤ آبگینوں میں
دلِ عُشاق کی خبر لینا
پھول کھِلتے ہیں ان مہینوں میں
۔۔۔۔۔
شام
اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اُجڑا ہوا، بے نُور پُرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر دم، ہر اک در کا دمِ آخر تک
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ ملے، ماتھے پر سیندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بُجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا
آسماں آس لئے ہے کہ یہ جادو ٹُوٹے
چُپ کی زنجیر کٹے، وقت کا دامن چھُوٹے
دے کوئی سنکھ دہائی، کوئی پایل بولے
کوئی بت جاگے، کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے
۔۔۔۔۔۔
غزل
جمے گی بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے تھے
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بُجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک قرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ گئے ہیں
قریب آ اے مہِ شبِ غم، نظر پہ کھُلتا نہیں کچھ اس دم
کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے، کون سے نام بُجھ گئے ہیں
بہار اب آ کے کیا کرے گی کہ جن سے تھا جشنِ رنگ و نغمہ
وہ گل سرِ شاخ جل گئے ہیں، وہ دل تہِ دام بُجھ گئے ہیں
۔۔۔۔۔
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں !
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم
منتشِر دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم، بار کہسار غم
جس کو چھُو کر سبھی اک طرف ہو گئے
بات کی بات میں ذی شرف ہو گئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کھِلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق، نعرۂ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو، ماتم  جسم و جاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
۔۔۔۔۔
نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلہ تسکین نہیں اور آس بہت ہے
اُمیدِ یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس بہت ہے
۔۔۔۔۔
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے
مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھُلا کیوں نہیں دیتے
۔۔۔۔۔
شورشِ زنجیر بسم اللہ
۔۔۔
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ
درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے
دریدہ دامنوں والے،پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
گنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرستش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالہ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہئے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہئے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہئے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ
سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
لاہور جیل
۔۔۔۔
آج بازار میں پابجولاں چلو
۔۔۔۔
چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو
لاہور جیل
۔۔۔
غزل
یہ جفائے غم کا چارہ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے تری گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَر مِٹیں ہم، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری، یُوں پھِرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشہ قفس ہے، وہی فصلِ گُل کا ماتم
لاہور جیل
۔۔۔۔۔
قید تنہائی
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
خواب ہی خواب میں بیدار ہُوا درد کا شہر
خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی
عدم آبادِ جُدائی میں سحر ہونے لگی
کاسہ دل میں بھری اپنی صبُوحی میں نے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
آنکھ سے دُور کسی صبح کی تمہید لیے
کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت
بے خبر گزری، پریشانیِ اُمیّد لئے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
حسرتِ روزِ ملاقات رقم کی میں نے
دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام
حُسنِ آفاق، جمالِ لب و رخسار کے نام
زندانِ قلعہ لاہور
۔۔۔۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ جِگر، ساغر میں ہے خونِ  حسرتِ مَے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں
  قلعہ لاہور
۔۔۔۔
زندگی
 ملکۂ شہرِ زندگی تیرا  
 شُکر کسِ طور سے ادا کیجئے
 دولتِ دل کا کچھ شمار نہیں
 تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے
جو ترے حُسن کے فقیر ہوئے
 ان کو تشویشِ روزگار کہاں ؟
درد بیچیں گے گیت گائیں گے
 اِس سے خوش وقت کاروبار کہاں ؟
جام چھلکا تو جم گئی محفل 
 مِنّت لُطفِ غم گسار کسے؟
اشک ٹپکا تو کھِل گیا گلشن 
 رنجِ کم ظرفیِ بہار کسے؟
خوش نشیں ہیں کہ چشم و دل کی مراد 
دَیر میں ہے نہ خانقاہ میں ہے
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
 ہر صنم اپنی بارگاہ میں ہے
کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی
 نقدِ شمس و قمر کی بات کرے
جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے 
 جائے تسخیرِ کائنات کرے
۔۔۔۔۔
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزر چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرنے غم گسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق  پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
۔۔۔۔۔
آ گئی فصلِ سکُوں چاک گریباں والو
سِل گئے ہونٹ، کوئی زخم سِلے یا نہ سِلے
دوستوں بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے
کھِل گئے زخم، کوئی پھول کھِلے یا نہ کھِلے
۔۔۔۔۔
ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دِنوں
کھِلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر
ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا
دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لہُو سے پُر
۔۔۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
۔۔۔۔
(۱)
ملاقات مری
ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رُخصت ہُوئے رہ گیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
اک ہتھیلی پہ حِنا، ایک ہتھیلی پہ لہو
اک نظر زہر لئے ایک نظر میں دارو
دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقتِ درد میں بے آب ہُوا تختہ داغ
کس سے کئے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے  ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری
آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار بھی ہے
(۲)
ختم ہوئی بارشِ سنگ
ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہو گا
بُجھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد
دوستو! قافلہ درد کا اب کیا ہو گا
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لئے ہے لبِ دلدار کا رنگ
کُوئے جاناں میں کھُلا میرے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کِس کِس کی صدا میرے بعد
’’کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
ہے مکّرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘
۔۔۔۔۔۔
ان دنوں رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے
قاصدا، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے
کُوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے
آج کل صورتِ بربادی یاراں کیا ہے
غزل
آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رُو برُو پھر سرِ رہگزر آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمر  رفتہ ترا اعتبار آگیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کھِلا، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا
خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے، دل سُلگنے لگے، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آ گئی، پھر شبِ آرزو پر نکھار آگیا
سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا
فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا
کہاں جاؤ گے
۔۔۔۔۔
اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری
سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی، ترک مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یا نہ آئے گا کوئی!
ترکِ دنیا کا سماں، ختمِ ملاقات کا وقت
اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں، رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
اور ہر کشتہ واماندگی آخر شب
بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب
جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے
۔۔۔۔۔
یک بیک شورشِ فغاں کی طرح
فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح
پھر لہو سے ہر ایک کاسہ داغ
پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح
یاد آیا جنونِ گُم گشتہ
بے طلب قرضِ دوستاں کی طرح
جانے کس پر ہو مہرباں قاتِل
بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح
ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
۔۔۔۔۔۔
شہرِ یاراں
آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر
جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف
بُجھتے بُجھتے بُجھ گئی ہے عرش کے حُجروں میں آگ
دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف
اے صبا شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام
سر جھکائے جا رہی ہے شہرِ یاراں کی طرف
شہر یاراں جس میں اِس دم ڈھونڈتی پھرتی ہے موت
شیر دل بانکوں میں اپنے تیر و نشتر کے ہدف
اِک طرف بجتی ہیں جوشِ زیست کی شہنائیاں
اِک طرف چنگھاڑتے ہیں اہر من کے طبل و دف
جا کے کہنا اے صبا، بعد از سلامِ دوستی
آج شب جس دم گُزر ہو شہر یاراں کی  طرف
دشتِ شب میں اس گھڑی چپ چاپ ہے شاید رواں
ساقیِ صبحِ طرب، نغمہ بلب، ساغر بکف
وہ پہنچ جائے تو ہو گی پھر سے برپا انجمن
اور ترتیبِ مقام و منصب و جاہ و شرف
۔۔۔۔
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا، دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
۔۔۔۔۔
خوشا ضمانتِ غم
۔۔۔۔
دیارِ یار تری جوششِ جنوں پہ سلام
مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر
رہِ یقین افشانِ خاک و خوں پہ سلام
مرے چمن ترے زخموں کے لالہ زار کی خیر
ہر ایک کشتہ ناحق کی خامشی پہ سلام
ہر ایک دیدۂ پُر نم کی آب و تاب کی خیر
رواں رہے یہ روایت، خوشا ضمانتِ غم
نشاطِ ختمِ غمِ کائنات سے پہلے
ہر اک کے ساتھ رہے دولتِ امانتِ غم
کوئی نجات نہ پائے نَجات سے پہلے
سکوں ملے نہ کبھی تیرے پا فگاروں کو
جمالِ خونِ سرِ خار کو نظر نہ لگے
اماں ملے نہ کہیں تیرے جاں نثاروں
جلالِ فرقِ سرِدار کو نظر نہ لگ
پاس رہو
۔۔۔۔
تم مرے پا س رہو
میرے قاتل، مرے دِلدار،مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مُشک لئے،نشترِالماس لئے
بَین کرتی ہوئی،ہنستی ہُوئی،گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
جس گھڑی سینوں میں ڈُوبے ہُوئے دل
آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ تکنے لگیں
آس لئے
اور بچوں کے بلکنے کی طرح قُلقُل مے
بہرِ ناسودگی مچلے تو منائے نہ مَنے
جب کوئی بات بنائے نہ بنے
جب نہ کوئی بات چلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی، سُنسان،سیہ رات چلے
پاس رہو
میرے قاتل،مرے دلدار مرے پاس رہو!
۔۔۔۔
تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے
کس کا درد ہو کرتے ہیں ہم تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہُوا ہے جب سے دلِ نا صبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
۔۔۔۔
ہر سَمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دیئے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے
تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مَے خانے میں عاجز ہُوئے آزُردہ دِلی سے
مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے
یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض، کبھی بخیہ گری نے
۔۔۔۔۔
شرحِ فراق، مدحِ لبِ مشکبو کریں
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
یار آشنا نہیں کوئی،ٹکرائیں کس سے جام
کس دل رُبا کے نام پہ خالی سَبُو کریں
سینے پہ ہاتھ ہے، نہ نظر کو تلاشِ بام
دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں
کب تک سنے گی رات، کہاں تک سنائیں ہم
شکوے گِلے سب آج ترے رُو برُو کریں
ہمدم حدیثِ کوئے ملامت سُنائیو
دل کو لہو کریں کہ گریباں رفو کریں
آشفتہ سر ہیں، محتسبو، منہ نہ آئیو
سر بیچ دیں تو فکرِ دل و جاں عدو کریں
’’تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ‘‘
۔۔۔۔۔
ہارٹ اٹیک
۔۔۔۔۔
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھُل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ فاصلہء شوق کی تّیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو