جنوں اور وحشت پر اردو اشعار

جنوں اور  وحشت پر اردو اشعار
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں بھی ہمیشہ خط میں
قبلہ و کعبہ لکھا کرتا تھا القاب مجھے
(ذوق دہلوی)

میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
مجنوں کا نام ہو گیا قسمت کی بات ہے
(اکبر اِلٰہ آبادی)

خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں
کبھی میرے گریباں کو، کبھی جاناں کے دامن کو
(مرزا غالب)

یہ جوشِ جنوں رنگ لانے لگا
گریباں تک اب ہاتھ جانے لگا
(بیخود دہلوی)

ہمارا دشتِ وحشت بھی کہیں بیکار رہتا ہے
نہ جب باقی رہا اپنا تو ناصح کا گریباں تھا
(حیراں بریلوی)

دلِ وحشی کو خواہش ہے تمہارے دَر پہ آنے کی
دیوانہ ہے ولیکن بات کہتا ہے ٹھکانے کی
(قلندر بخش جرات)

تھی وہ مجنوں کے دَم ہی تک رونق
خاک اُڑتی ہے اب بیاباں میں
(میر مجروح دہلوی)

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی
(مرزا غالب)

خبرِ تحیرِ عشق سن! نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
(سراج اورنگ آبادی)

اے عشق جنوں پیشہ! ہاں عشق جنوں پیشہ
آج  اک ستم گر کو ہنس ہنس کے رُلانا ہے
(جگر مراد آبادی)

مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
(آغا قزلباش)

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے ۔ خدا کرے کوئی
(مرزا غالبؔ)

کیا جانیے کیا ہو گیا اربابِ جنوں کو!
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
(جگر مراد آبادی)

اب جنوں حد سے بڑھ چلا ہے
اب طبعیت بہل چلی ہے
(فیض احمد فیض)

کیا صوفی و ملا کو خبر میرے جنوں کی
ان کا سرِ دامن بھی ابھی چاک نہیں ہے
(علامہ اقبال)

یا رب! کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے آستیں رہے
(جگر مراد آبادی)

انہیں کے فیض سے بازارِ عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے
(فیض احمد فیض)

جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صِفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
(مجروح سلطان پوری)

قبا ایک دن چاک اس کی بھی ہوگی
جنوں کب کسی کی رعایت کرے ہے
(کلیم عاجز)

اے قیس جنوں پیشہ! انشاؔ کو کبھی دیکھا
وحشی ہو تو ایسا ہو، رُسوا ہو تو ایسا ہو
(ابنِ انشاؔ)