اعتبارِ نغمہ ناصر کاظمی

اعتبارِ نغمہ ناصر کاظمی
ناصرؔ کاظمی کا شمار جدید غزل کے ان چند شعراء میں ہوتا ہے جنہیں ان کی زندگی میں ہی مقبولیت ملنی شروع ہو گئی تھی۔ پُر کشش اندازِ بیاں، سنجیدہ خیالات، نادر اور اچھوتی تشبیہات اور استعارے سامعین کو اس قدر پسند آئے کہ دیگر شعراء نے بھی ناصرؔ کی تقلید میں ہی غنیمت جانی۔ ناصرؔ کے عہد میں اور ان کے بعد کے کئی شعراء میں ناصرؔ کا رنگ کہیں کہیں جھلکتا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ناصرؔ نے جو نئی شاہراہ تلاش کی تھی اس پر چلنے والوں کی تعداد کافی ہے۔ ناصرؔ کی بے پناہ مقبولیت نے دیگر شعراء کو یہ باور کرایا کہ ناصرؔ کی تقلید ان کے لیے سود مند ہے۔ خود ناصرؔ کو بھی اس بات کا احساس تھا؎

شہر میں اب ہمارے چرچے ہیں
جگمگاتے ہیں کاخ و کُو ہم سے

محمد حسن عسکری لکھتے ہیں:
"ناصر کاظمی کی غزل کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ لوگوں نے اسے بھی ایک نسخہ بنا ڈالا ہے۔ اب یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ اگر غزل میں وہ الفاظ اور ترکیبیں آ گئیں جو ناصرؔ کاظمی نے استعمال کی ہیں تو غزل کی کامیابی میں شبہ نہیں۔"