کنور مہندر سنگھ بیدی کے اردو اشعار اور غزلیں

کنور مہندر سنگھ بیدی کے اردو اشعار اور غزلیں

کنور صاحب اردو کلاسیکی غزل کے رسیا ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ غزل کی تمام مسلمہ خصوصیات ان کے کلام کا طرہ امتیاز ہیں۔ دھیما اور نرم لہجہ، زبان کی سلاست اور شگفتگی، اسلوب کی ایمائیت اور تہہ داری اس کے نمایاں اوصاف ہیں۔ 

 1-
نہ سہی رندِ بلانوش مگر پھر بھی سحرؔ
اپنے ہاتھوں کو تہی جام کہاں تک دیکھوں

2-
آدمی موت سے نہیں ڈرتا
آدمی آدمی سے ڈرتا ہے

3-
چمن میں خزاؤں سے گھبرانے والو
بہاریں گزاری ہیں ہم نے قفس میں

4-
مرے پہلو سے اٹھے، غیر کے پہلو میں جا بیٹھے
جو تم اٹھے تو کیا اٹھے جو تم بیٹھے تو کیا بیٹھے

5-
ذوقِ سجدہ تو سر میں ہے لیکن
سر کے قابل بھی ہو آستانہ

6-
چکائے جائیں گے محشرؔ میں بدلے
سحرؔ دل میں حسابِ دوستاں رکھ

7-
ہم دیکھ کے واعظ کو یہی کہتے ہیں
ساون کا جو اندھا ہے ہرا دیکھتا ہے

8-
نہ فکرِ شیخ و برہمن نہ ذکرِ دَیر و حرم
جسے سکوں کی طلب ہو وہ میکدے کو چلے

9-
ادائیں، کنائے، نگاہیں، اشارے
دیے جا رہے ہیں وہ غم کو سہارے

10-
محبت کی بازی کا طُول اللہ اللہ!
نہ ہارے نہ جیتے نہ جیتے نہ ہارے

سحرؔ موسمِ برق و باراں میں اکثر
کیے ہیں مشیت نے مجھ کو اِشارے

11-
تیرے بیمار کو بے سود ڈراتی ہے اجل
مر چکا ہوگا وہ سَو بار قضا سے پہلے

12-
شاید کہ کسی بھولنے والے نے کیا یاد
"اب کچھ بھی نہیں مجھ کو محبت کے سوا یاد"

یہ کفر سہی واعظِ کج فہم مگر سوچ
رہتا ہے کسے عہدِ محبت میں خدا یاد

13-
رحمت نے لپک کر جنہیں بخشا سرِ محشر
اے زاہدِ خود بیں وہ گنہگار ہمیں تھے

14-
یہ گھٹا، یہ ہوا، یہ ابر سحرؔ
کوئی سمجھے تو اِک اشارا ہے

15-
چھڑا ذکر جب اُن کے جور و ستم کا
مجھے ان کے لاکھوں کرم یاد آئے

16-
یہاں معلوم ہوتی ہے، وہاں معلوم ہوتی ہے
خلش دل کی کہاں ہے اور کہاں معلوم ہوتی ہے

17-
بہت مشکل ہے منزل عشق کی توبہ ارے توبہ
یہاں تو انتہا بھی ابتدا معلوم ہوتی ہے

بہت بھاگے، بہت دوڑے، بہت سوچا کیے لیکن
محبت کی محبت ہی دوا معلوم ہوتی ہے

غزل سن کر سحرؔ کی سب لگے بے ساختہ کہنے
کسی ٹوٹے ہوئے دل کی صدا معلوم ہوتی ہے

18-
قصہء غم انہیں سو بار سنا رکھا ہے
اب باندازِ حدیثِ دگراں اور سہی

ترکِ اُلفت پہ وہ اب ترکِ ستم کرتے ہیں
سینکڑوں غم ہیں جہاں ایک وہاں اور سہی

19-
سُن تو لیں پہلے نویدِ آمدِ فصلِ بہار
ہم نہیں ایسے کہ یوں ہی چاک دامانی کریں

20-
آؤ اے ساقی کہ ہم جام و سبو کے نور میں
دفترِ ماضی کی پھر اوراق گردانی کریں

21-
مُطربا گیت، ساقیا لا جام
زندگی لوٹ کر نہیں آتی


22-
پیے جانے والے پیے جا رہے ہیں
نہ ساقی، نہ شیشہ، نہ ساغر، نہ بادہ

23-
وہ آئے گھر پہ ہمارے مگر رقیب کے ساتھ
یہ دوستی ہے تو پھر دشمنی نہیں ہوتی

24-
گلستاں ہے نہ آشیاں اپنا
کر چکی کام اب خزاں اپنا

25-
ہمیں شاد رکھنا بڑی بات کیا ہے
ذرا مسکرائے زرا بات کر لی

26-
نگہہِ لطف سے نہ دیکھ ہمیں
پھر تمنا جواں نہ ہو جائے

27-
مکتبِ عشق میں اے نَو آموز
آہ کرنا گناہ کرنا ہے

28-
تری نظروں سے ٹھکرائے ہوئے لوگ
کہیں کے بھی نہیں ہم جانتے ہیں

29-
واعِظ کو تہجد میں رُخِ حور کی سُوجھی
"اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سُوجھی"

30-
حسن کی شوخیاں ذرا دیکھو
گاہ شعلہ ہے گاہ شبنم ہے

31-
شیخ صاحب جراحتِ دل کا
آپ کے پاس کوئی مرہم ہے

32-
آفت میں، غم میں، رنج میں، مشکل میں آ گئے
ہم کیا سمجھ کے کوچہء قاتل میں آ گئے

33-
کرنے والے حجاب کرتے ہیں
ہم نظر کامیاب کرتے ہیں

34-
صبح دم جب کوئے جاناں سے ہوا آنے لگی
میں یہ سمجھا باغِ رضواں سے صبا آنے لگی

35-
جھکے تو ہیں مگر ایک آستاں پر
بڑے خوددار ہیں مغرور ہیں ہم

36-
کوئی سمجھے تو آخری ہچکی
نعرہء احتجاج ہے پیارے

37-
فرہاد و قیس کوہ و بیاباں کے ہو گئے
ہم تیرے در کے ہیں یا تری رہگزر کے ہیں

38-
محفلِ ناز ہو کہ دار و رسن
ہر طرف کامیاب ہیں ہم لوگ

39-
ہم سے ہے رونقِ زمین و زماں
ویسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ

ستمِ بے پناہ ہیں دنیا
کرمِ بے حساب ہیں ہم لوگ

40-
عقل نے اکثر دل کو کوسا
ناچ نہ جانے ٹیڑھا آنگن

41-
کرو جو چاہو ہم سے پوچھنا کیا
ہماری آرزو کیا مدعا کیا

42-
حسن اِک دھوکا سہی واعظ مگر
جی میں آتا ہے یہ دھوکا کھائیے

43-
زندگی کا کیا یہی انجام ہے
حسرتیں دل میں لیے مر جائیے

44-
محبت ایک ایوانِ تمنا!
مگر گرتی ہوئی دیوار بھی ہے

45-
روک دے گردشِ زمانہ کو
تیرے ہاتھوں میں جام ہے ساقی

46-
زندگی مختصر سہی اس کو
وقفِ مینا و مَے و جام کرو