منیر نیازی کی غزلیں اور اشعار | کلیاتِ منیر نیازی سے انتخاب
وہم تجھ کو یہ عجب ہے اے جمالِ کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تُو دید کے قابل نہ ہو
2۔
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
3۔
کسی اکیلی شام کی چپ میں
گیت پرانے گا کر دیکھو
4۔
مدت سے جو روٹھے ہیں اور مجھ سے نہیں ملتے
گر شعر میرے سن لیں جی اُن کا پھڑک جائے
5۔
صبحِ کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
6۔
جب سفر سے لوٹ کر آئے تو کتنا دُکھ ہوا
اُس پرانے بام پر وہ صورتِ زیبا نہ تھی
7۔
وہاں رہے تو کسی نے بھی ہنس کے بات نہ کی
چلے وطن سے تو سب یار ہاتھ ملنے لگے
8۔
رستے میں ایک بھولی ہوئی شکل دیکھ کر
آواز دی تو لب پہ کوئی نام بھی نہ تھا
9۔
منیر آ رہی ہے گھڑی وصل کی
زمانے گئے ہجر کی رات کے
10۔
شاید کوئی دیکھنے والا ہو جائے حیران
کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ
11۔
اگر روک لیتے تو جاتا نہ وہ
مگر ہم بھی اپنی ہواؤں میں تھے
12۔
گزری ہے کیا مزے سے خیالوں میں زندگی
دُوری کا یہ طلسم یہ بڑا کارگر رہا
13۔
اُس آخری نظر میں عجب درد تھا منیرؔ
جانے کا اُس کے رنج مجھے عمر بھر رہا
14۔
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اُجڑ گئیں ہیں مگر پاسباں تو ہے
15۔
یہی سزا ہے مری اب جو میں اکیلا ہوں
کہ میرا سر ترے آگے بھی خم نہیں ہوتا
16۔
وہ جو پاس آ کے یونہی چپ سا کھڑا رہتا تھا
اُس کی تو خُو تھی یہی تم ہی بلاتے اُس کو
17۔
منیرؔ گھر سے نکل کر ہم بھی
پھرے بہت در بدر اکیلے
18۔
مُدت کے بعد آج اُسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
19۔
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو اُن کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے
20۔
تند نشہ خمار سا نکلا
آسماں بھی غبار سا نکلا
21۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
22۔
تنہا اُجاڑ بُرجوں میں پھرتا ہے تو مںیرؔ
وہ زر فشانیاں ترے رُخ کی کدھر گئیں
23۔
رات دن کے آنے جانے میں یہ سونا جاگنا
فکر والوں کو پتے ہیں اس نشانی میں بہت
24۔
آج اُس محفل میں تجھ کو بولتے دیکھتا منیرؔ
تُو کہ جو مشہور تھا یوں بے زبانی میں بہت
25۔
غیروں سے مل کے ہی سہی، بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا
26۔
تھکے لوگوں کو مجبوری میں چلتے دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں
27۔
منیرؔ ان دنوں سے پریشاں نہ ہو
کہ دن ان سے گزرے ہیں ابتر کئی
28۔
کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیرؔ
مزا تو جب ہے کہ اُس شوخ کو پتا ہی نہ ہو
29۔
رنگِ محفل بدلتا رہتا ہے
رنگ کوئی وفا نہیں کرتا
عیشِ دُنیا کی جستجو مت کر
یہ دفینہ ملا نہیں کرتا
جی میں آئے جو کر گزرتا ہے
تُو کسی کا کہا نہیں کرتا
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
عہدِ انصاف آ رہا ہے منیرؔ
ظلم دائم ہوا نہیں کرتا
۔
30۔
زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی
31۔
یہ نمازِ عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
32۔
کھل گئے شہرِ غم کے دروازے
اِک زرا سی ہوا کے چلتے ہی
33۔
تلخ اس کو کر دیا احبابِ قریہ نے بہت
ورنہ اک شاعر کے دل میں اس قدر نفرت کہاں
34۔
ایک منزل یہ بھی تھی خوابوں کی ورنہ اے منیرؔ
میں کہاں اور اس دیارِ غیر کی غربت کہاں
35۔
رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی
اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی
36۔
شعر منیر لکھوں میں اٹھ کر صحنِ سحر کے رنگوں میں
یا پھر کام یہ نظمِ جہاں کا شام ڈھلے کے بعد کروں
37۔
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
38۔
کوئی تو ہے منیرؔ جسے فکر ہے مری
یہ جان کر عجیب سی حیرت ہوئی مجھے
39۔
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
40۔
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے وقت
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اُس نے کیا
41۔
ناشناسی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے ہم زمانے سے جدا ہوتے گئے
42۔
ایک بے مہر دن کے آخر پر
شام آئی ہے کیسی جام طلب
43۔
اپنے رتبے کا کچھ لحاظ منیرؔ
یار سب کو بنا لیا نہ کرو
44۔
اتنے خاموش بھی رہا نہ کرو
غمِ جدائی میں یوں کیا نہ کرو
45۔
پوچھتے ہیں کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
46۔
ہم بھی گھر سے منیرؔ تب نکلے
بات اپنوں کی جب سہی نہ گئی
47۔
لمحہ لمحہ دم بہ دم
بس فنا ہونے کا غم
یہ حقیقت ہے منیرؔ
خواب میں رہتے ہیں ہم
48۔
بین کرتی عورتیں
رونقیں ہیں
موت کی
49۔
کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیرؔ
اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی
50۔
سائے گھٹتے جاتے ہیں
جنگل کٹتے جاتے ہیں
کوئی سخت وظیفہ ہے
جو ہم رٹتے جاتے ہیں
دیکھ منیرؔ بہار میں گلشن
رنگ سے اٹتے جاتے ہیں
Tags:
منیر نیازی