کلیات فانی از شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی

کلیات فانی از شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی

بیسویں صدی کے غزل گو شعراء میں فانیؔ ایک ممتاز اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ حسرتؔ کے ساتھ انہوں نے بھی غزل کے احیا میں نمایاں خدمت انجام دی ہے۔ فانیؔ یقیناََ اس شاعرانہ عظمت کے حامل تھے کہ ان کے کلام کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے۔ 

فانیؔ کی شخصیت اور شاعری کی گتھیوں کو سلجھانا اس لیے بھی دشوار ہے کہ وہ ایسے عہد کی پیداوار تھے جس کا عام فکری رجحان "مثبت" تھا۔ یعنی بیسویں صدی کا نصف اول جو ہماری قومی زندگی کا ایک مثبت دور تھا۔ یہ گاندھی، جواہر لال اور اقبالؔ کا حیات آفریں عہد تھا، نذرالسلام اور جوشؔ کا انقلابی زمانہ تھا، حسرتؔ، جگرؔ اور اصغرؔ کی نشاطیہ اور رجائیہ شاعری کا دور دورہ تھا۔ یہ ہماری قومی تحریک آزادی کا دور تھا۔ دار و رسن کا دور تھا، مزدور و کوہکن کا دور تھا۔ ایک ایسے سیاسی و معاشرتی دور میں فانیؔ کی یہ آواز تنہا آواز ہے

اِک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا