Aesthetics جمال پرستی Explained in Urdu

یہ ترکیب یونانی لفظ aistheta سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں " وہ اشیا جن کا حواس کی مدد سے ادراک کیا جا سکے"۔ رفتہ رفتہ aesthetic بطور اسمِ صفت رائج ہو گیا اور اس سے کوئی ایسا پیمانہ مراد لیا جانے لگا جو جمال یا خوش ذوقی کو پرکھنے کا کام دے۔ چنانچہ جمال پرست وہ ہوا جو فنون اور ادب میں "جمال" کو ڈھونڈے اور جمال کے سوا کسی پہلو سے سروکار نہ رکھے۔   جمال پرستی aestheticism ایک تحریک یا طرزِ احساس کے طور پر انیسویں صدی میں کھل کر سامنے آئے۔ رومانی عہد کے کئی جرمن مشاہیر نے اسے اپنایا جن میں کانٹ، گوئٹے، اور شلر کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ وہ قائل تھے کہ فن کو خود فرمان ہونا چاہیے (یعنی اس پر کسی کا حکم نہ چلے اور وہ من مانی کرے)۔ گویا اس نقطہء نظر کو فروغ ملا کہ فن اپنے طور پر مکمل ہے اور خود تکمیلی کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمال پرستوں کے نزدیک فن کار کسی کا مرہونِ منت نہ ٹھہرا بلکہ اس کی حیثیت نرالی اور باقی انسانوں سے الگ ہو گئی۔ یہیں سے اس خیال کو بھی تقویت ملی کہ فنکار تو رند اور لااُبالی ہوتا ہے اور کسی دینی یا دنیاوی قدر کو نہیں مانتا۔ فن برائے فن یا ادب برائے ادب کی اصطلاح عام ہوئی۔ فن زندگی سے کٹ گیا بلکہ زندگی کا متبادل قرار پایا۔ اس طرزِ فکر میں کئی طرح کی خرابیاں مضمر تھیں۔    تاہم جمال پرستی کے تمام منفی پہلو نہ تھے۔ ایک سطح پر یہ سرمایہ دارانہ نظام اور مادہ پرستی کی بالادستی اور اس سے جنم لینے والی ریاکاری، عدم مساوات اور ظلم و ستم کے خلاف ردِ عمل بھی تھا۔ جو صدقِ دل سے جمال کی افادیت کے قائل تھے انہوں نے تسلیم کیا کہ جس شے یا فن میں جمال ہوگا وہ قدر و قیمت رکھے گی۔ مشکل یہ ہے کہ جمال کے تعین کی کوئی سائنسی اور دو ٹوک وضع تو ہے نہیں۔ اس لیے یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی کہ جمال کہاں ہے اور کہاں نہیں ہے۔

جمال پرستی کیا ہے؟ 

یہ ترکیب یونانی لفظ aistheta سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں " وہ اشیا جن کا حواس کی مدد سے ادراک کیا جا سکے"۔ رفتہ رفتہ aesthetic بطور اسمِ صفت رائج ہو گیا اور اس سے کوئی ایسا پیمانہ مراد لیا جانے لگا جو جمال یا خوش ذوقی کو پرکھنے کا کام دے۔ چنانچہ جمال پرست وہ ہوا جو فنون اور ادب میں "جمال" کو ڈھونڈے اور جمال کے سوا کسی پہلو سے سروکار نہ رکھے۔ 

جمال پرستی aestheticism ایک تحریک یا طرزِ احساس کے طور پر انیسویں صدی میں کھل کر سامنے آئے۔ رومانی عہد کے کئی جرمن مشاہیر نے اسے اپنایا جن میں کانٹ، گوئٹے، اور شلر کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ وہ قائل تھے کہ فن کو خود فرمان ہونا چاہیے (یعنی اس پر کسی کا حکم نہ چلے اور وہ من مانی کرے)۔ گویا اس نقطہء نظر کو فروغ ملا کہ فن اپنے طور پر مکمل ہے اور خود تکمیلی کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمال پرستوں کے نزدیک فن کار کسی کا مرہونِ منت نہ ٹھہرا بلکہ اس کی حیثیت نرالی اور باقی انسانوں سے الگ ہو گئی۔ یہیں سے اس خیال کو بھی تقویت ملی کہ فنکار تو رند اور لااُبالی ہوتا ہے اور کسی دینی یا دنیاوی قدر کو نہیں مانتا۔ فن برائے فن یا ادب برائے ادب کی اصطلاح عام ہوئی۔ فن زندگی سے کٹ گیا بلکہ زندگی کا متبادل قرار پایا۔ اس طرزِ فکر میں کئی طرح کی خرابیاں مضمر تھیں۔ 


تاہم جمال پرستی کے تمام منفی پہلو نہ تھے۔ ایک سطح پر یہ سرمایہ دارانہ نظام اور مادہ پرستی کی بالادستی اور اس سے جنم لینے والی ریاکاری، عدم مساوات اور ظلم و ستم کے خلاف ردِ عمل بھی تھا۔ جو صدقِ دل سے جمال کی افادیت کے قائل تھے انہوں نے تسلیم کیا کہ جس شے یا فن میں جمال ہوگا وہ قدر و قیمت رکھے گی۔ مشکل یہ ہے کہ جمال کے تعین کی کوئی سائنسی اور دو ٹوک وضع تو ہے نہیں۔ اس لیے یہ بحث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی کہ جمال کہاں ہے اور کہاں نہیں ہے۔