انور شعور کے بیس اشعار

انور شعور کے بیس اشعار

 انور شعور نے اردو غزل کو روایت سے بھی جوڑے رکھا ہوا ہے اور اس میں نت نئے رنگ بھر کر مختلف زاویوں سے طبع آزمائی و خیالات کو ندرت سے پیش کر کے جدید بنا دیا ہے۔ وہ گل و بلبل، دشت و گلزار اور لب و رخسار کے قصے بھی بیان کرتے ہیں مگر ان کی شاعری کے آئینے میں یہ تمام تصویریں جوانی اوڑھے نظر آتی ہیں۔ ان کا معنوی حسن جوبن پر ہوتا ہے۔ وہ عمدہ الفاظ کے استعمال، نئی نئی تراکیب اور عام فہم جملوں کے چناؤ سے کلام میں جو روانی اور سلاست پیدا کرتے ہیں وہ انہیں کا خاصہ ہے۔ 

1-
اچھا اچھا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

2-
کب سے اِسی گلی میں، اسی گھر میں ہوں مگر
پہچانتا نہیں ہے برابر کا آدمی

3-
رفو گروں نے عجب طبع آزمائی کی
رہی سِرے سے نہ گنجائشِ رفو مجھ میں

4-
تعارف اور کیا اس کے سوا ہو
کہ میں بھی آپ جیسا آدمی ہوں

5-
کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چُور ہو کر گر پڑا ہوں

6-
کبھی روتا تھا اس کو یاد کر کے
اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں

7-
میں مارنے سے مر نہیں سکتا کبھی یہ بات
ہو دیکھنی اگر تو مجھے مار دیکھنا

8-
مجھ سے سرزد ہوتے رہتے ہیں گناہ
آدمی ہوں، کیوں کہوں اچھا ہوں میں

9-
کانچ سی گڑیوں کے نرم اعصاب پر
صورتِ سنگِ ہوس پڑتا ہوں میں

10-
میں چھپاتا ہوں برہنہ خواہشیں
وہ سمجھتی ہے کہ شرمیلا ہوں میں

11-
خواب آور گولیوں سے اے شعورؔ
خودکشی کی کوششیں کرتا ہوں میں

12-
ایک دنیا مجھ سے تھی روٹھی ہوئی
تو نے بھی ٹھکرا دیا اچھا کیا

13-
توقعات سے بڑھ کے وہ خوب رو نکلا
مگر جو دل میں تھے نقش و نگار، ہائے وہ

14-
چاند کو جب قریب سے دیکھا
دور سے دیکھنے کی شے نکلی

15-
ڈانٹ کھاتا ہے شعورؔ آج گھرانے بھر کی
بچپنے میں یہ چہیتا تھا گھرانے بھر کا

16-
آج اے شعورؔ آنا ممکن نہیں ہمارا
کچھ لوگ آ رہے ہیں کچھ کام کاج ہیں

17-
منانا پڑا ایک ناراض کو
کسی اور کے ساتھ جا کے ہمیں

18-
کم سے کم خواب دیکھ لیتا ہوں
دن سے تو بہتر ہے رات میری

19-
نظر آتا ہے کم کم گل رُخوں میں
مجھے جو ناک نقشہ چاہیے ہے

20-
ہزار ذائقے ہوں گے حیات کے لیکن
ہم ایک ذائقۂ تلخ سے شناسا ہیں

---