رات کیا عمر بیت جاتی ہے ۔ لیاقت علی عاصم

رات کیا عمر بیت جاتی ہے
حبس میں کس کو نیند آتی ہے

اُن دریچوں سے میری آنکھوں تک
شام کیا کیا دِیے جلاتی ہے

کوئی دیوار بھی نہیں آگے
کیوں صدا جا کے لوٹ آتی ہے

دَہن غنچہ کھلتا جاتا ہے
تیری آواز آتی جاتی ہے

صبح دَم کُوچ کا ارادہ ہے
بات کر لو کہ رات جاتی ہے

موجِ یادِ گزشتگاں عاصمؔ
کس قدر دُور لے کے جاتی ہے

--------
لیاقت علی عاصمؔ