اسمارائیں افسانے از ممتاز مفتی
اسمارائیں میرے افسانوں کا چوتھا مجموعہ ہے۔ یہ کہانیاں 1950ء سے 1952ء کے دوران لکھی گئیں۔ 1947ء سے 1950ء تک پاکستان آزادی کی دردِ زہ سے گزر رہا تھا۔ یہ ذہنی انتشار کے دن تھے اور انتشار کے دنوں میں تخلیقی عمل رُک جاتا ہے۔ ذاتی طور پر میں بمبئی سے واپس آنے کے بعد تلاشِ معاش میں سرگرداں تھا۔ اس دوران میں مَیں ایک ایسے تجربے سے گزرا جس نے میرے ذہن پر گہرا اثر مرتب کیا۔ مجھے ایک ایسے محکمے میں نوکری کرنے کا موقعہ ملا جہاں انسانی شخصیت کا تجزیہ کیا جاتا تھا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی میں نفسیات کا طالب علم تھا لیکن مجھے شخصیت کے تضاد اور Polarization کا وضاحت سے شعور نہ تھا۔ مجھے علم نہ تھا کہ ہر خیر کے پھول کے ساتھ شر کا کانٹا لگا ہوتا ہے بلکہ خیر کے وجود کے قیام کے لیے شر کا کانٹا ضروری ہے۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ شخصیت مداری کے جادو کے ڈبے کی طرح ہوتی ہے۔ ڈبہ کھولو تو اندر سے ایک اور ڈبہ نکل آتا ہے۔ اسے کھولو تو ایک ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں ڈبہ۔
ہمارے روایتی ادب میں عام طور سے فلیٹ کردار پیش کیے جاتے ہیں۔ ہیرو مثبت شخصیت کا مالک ہوتا ہے، ولن منفی کا۔
مثلاََ اس مجموعے میں پہلی کہانی سمیع اور اسمارہ کی ہے۔ دونوں محبت کے جذبے میں بری طرح بھیگے ہوئے ہیں۔ دراصل انہیں محبوب سے نہیں محبت کی کیفیت سے محبت ہے اور یہ محبت سرشاری کی ایسی کیفیت پیدا کر چکی ہے کہ لاشعوری طور پر وہ خوفزدہ ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں ملاپ نہ ہو جائے۔ ملاب مقصود نہیں۔
میں نے کوشش کی ہے کہ انسانی شخصیت کی گھمن گھیریوں کو بیان کروں۔ اگر میں اس کوشش میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا تو بھی مجھے خوشی ہے کہ میں نے کوشش تو کی ۔
ممتاز مفتی
جولائی 1992ء
Tags:
ممتاز مفتی