محسن بھوپالی کی شاعری

محسن بھوپالی کی شاعری

محسنؔ بھوپالی کے نہ جانے کتنے شعر ضرب المثل بن چکے ہیں۔ (منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے) ان ضرب المثل بن جانے والے شعروں میں کروڑوں انسانوں کا اجتماعی شعور بول رہا ہے۔ 

تمہیں آسائشِ منزل مبارک
ہمیں گردِ مسافت ہی بہت ہے

اس تہہ در تہہ شعر میں تمہیں کا خطاب، آسائشِ منزل کا تذکرہ اور گردِ مسافت کا تدریجی ادراک ایسے جامع اشارے ہیں جن کی تفسیر کے لیے اکتالیس سال کے مجموعی حوادث کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ یہ اردو غزل میں ایک نئی روحانی واردات کا اظہار ہے۔  رئیس امروہوی 
(مطبوعہ روزمانہ "جنگ" کراچی جمعہ 16 ستمبر 1988ء)

1-
کبھی تو لوٹ کے دلداریوں کی رُت آئے
سدا بہار ہے مدت سے دار کا موسم

ہم اپنے آپ کو محسنؔ بدل کے دیکھیں گے
بدل سکے نہ اگر کوئے یار کا موسم

2-
تیرگی سے نہ کیجے اندازہ
کچھ گھروں میں دیے نہیں ہوتے

ظرف ہے شرطِ اولیں محسنؔ
جام سب کے لیے نہیں ہوتے

3-
یوں ہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے

جو آنے والے ہیں موسم انہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے ان کو گِنا نہیں کرتے

نہ دیکھا جان کے اس نے کوئی سبب ہوگا
اِسی خیال سے ہم دل برا نہیں کرتے

4-
ہمارے قتل پہ محسنؔ یہ پیش و پس کیسی
ہم ایسے لوگ طلب خوں بہا نہیں کرتے

5-
بڑے تپاک سے کچھ لوگ ملنے آئے تھے
بڑے خلوص سے دشمن بنا لیے ہم نے

6-
وعدہ کر کے لوگ بھلا کیوں دیتے ہیں
اب کے میں بھی ایسا کر کے دیکھوں گا

7-
اِس رُت نے تو چھین لیا ہے ہر امکاں
آنے والا موسم شاید اپنا ہو

8-
شکایتیں بھی بہت ہیں حکایتیں بھی بہت
گزر نہ جائیں یونہی عہدِ بے مثال کے دن

9-
اُسے یہ ناز بالآخر فریب کھا ہی گیا
مجھے یہ زعم کہ ڈوبا ہوں اعتماد کے ساتھ

10-
بڑھا گیا مرے اشعار کی دلآویزی
تھا لطفِ ناز بھی شامل کسی کی داد کے ساتھ

11-
اب آ گیا ہے تو ویرانیوں پہ طنز نہ کر
ترا مکاں اسی اجڑے ہوئے دیار میں تھا

مجھے تھا زعم مگر میں بکھر گیا محسنؔ
وہ ریزہ ریزہ تھا اور اپنے اختیار میں تھا

12-
ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن
کسے بتاؤں کہ میں بھی امین رکھتا تھا

13-
گزرنے والے نہ یوں سرسری گزر دل سے
مکاں شکستہ سہی پر مکین رکھتا تھا

وہ عقلِ کل تھا بھلا کس کی مانتا محسنؔ
خیالِ خام پہ پختہ یقین رکھتا تھا

قطعات محسن بھوپالی یہاں دیکھیے
14-
تباہیوں کا کسی نے اگر سبب پوچھا
زبانِ حال نے بے ساختہ کہا آنکھیں

یہ اس کا طرزِ تخاطب بھی خوب ہے محسنؔ
رُکا رُکا سا تبسم خفا خفا آنکھیں


15-
محستب خود بھی اس کا قائل ہے
زندگی بے سبب نہیں ہوتی

دوستی بھی کبھی رہی ہوگی
دشمنی بے سبب نہیں ہوتی

گھر جلا ہے یا دل جلا ہے کوئی
روشنی بے سبب نہیں ہوتی

کیا کسی کے ہو منتظر محسنؔ
بے کلی بے سبب نہیں ہوتی

16-
یہ بدلتی قدریں ہی حاصلِ زمانہ ہیں
بار بار ماضی کے یوں ورق نہ اُلٹا کر

17-
ہم نہ کہتے تھے کٹھن ہے غمِ دنیا پیارے
کیا سے کیا ہو گئی یہ صورتِ زیبا پیارے

18-
اے دوست جس سے روٹھ کے ٹھہرا تھا راہ میں
وہ کاروانِ شوق تو آگے نکل گیا

19-
مری فطرت ہے آہستہ خرامی!
میں خود ہی قافلے سے رہ گیا ہوں

20-
میں چھوٹوں میں بہت چھوٹا ہوں لیکن
بڑوں کے درمیاں سب سے بڑا ہوں

21-
فکرِ معاش کیا ہے جُز دائرہ نوردی
دیوار و در سے نکلے دیوار و دَر میں آئے

22-
میری کمزوریوں سے ہے واقف
میرا بد خواہ مجھ سے بہتر ہے

23-
حیرت نہ کیجیے یہ اصولِ تضاد ہے
دھوکا وہیں پہ ہوگا جہاں اعتماد ہے

24-
عمر کے تسلسل کو ٹوٹنا بھی تھا آخر
ایک دن تو یہ دفتر فرد فرد ہونا تھا

25-
ذرے ذرے میں جلوہ گر دیکھا
اس کو دیکھا نہیں مگر دیکھا

26-
کیا کہیں زندگی کے بارے میں
ایک تماشا عمر بھر دیکھا

27-
شیشہء جاں سنبھال کر رکھنا
ہر قدم دیکھ بھال کر رکھنا

28-
مجھ سے مل کر مجھی کو پوچھتے ہیں
بے خیالی سی بے خیالی ہے

29-
وہ جس کا ہاتھ سدا ہاتھ میں رہا محسنؔ
اسی سے ہاتھ ملانا عجیب لگتا ہے

30-
ہمارے عجز کو سمجھا نہیں گیا محسنؔ
ہم آزما کے اب اپنی اَنا کو دیکھتے ہیں

31-
ہماری نسل بزرگوں کے سامنے چپ تھی
یہ نسلِ نَو ہے، یہ سارے جواب مانگتی ہے

32-
ایک اک دن محال گزرا ہے
کس قیامت کا سال گزرا ہے

33-
زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا

34-
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے