غلام محمد قاصر کی شاعری

غلام محمد قاصر کی شاعری

کون غلام محمد قاصرؔ بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے

غلام محمد قاصر کو میں تحسین کا مستحق خیال کرتا ہوں کہ وہ لاہور سے دور رہ کر بھی شاعروں کی اس صف میں نظر آتے ہیں جہاں انسان ایک عمر کے بعد پہنچتا ہے۔ قاصرؔ صاحب کا پیرایہ اظہار رجعت پسندانہ نہیں وہ جدید اسلوبِ نگارش کے آدمی ہیں (احسان دانش)

1-
یوں تو صدائے زخم بڑی دور تک گئی
اِک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی

2-
روتی رہی لپٹ کے ہر اک سنگِ میل سے
مجبور ہو کے شہر کے اندر سڑک گئی

3-
حسن نے خود کہا مصور سے
پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا

4-
شعر اک مشغلہ تھا قاصر کا
اب یہی مقصدِ حیات بنا

5-
دعائے وصل تو دونوں کی عادت بن گئی ورنہ
نہ خواہش میرے سینے میں نہ حسرت اس کے چہرے پر

6-
بوسیدہ سا مکاں ہے یارو! دعائے باراں
منظور ہو گئی تو گر جائے گی یہ چھت بھی

7-
یہ حادثہ ہے کہ ناراض ہو گیا سورج
میں رو رہا تھا لپٹ کر خود اپنے سائے سے

8-
سماعتوں کا سفر اور کیا عطا کرتا؟
سجا رہا ہوں سبھی دستکیں قرینے سے

9-
خواہش، خمار، خوف، خرد، خواجگی، خراج
ہر رنگ میں ملا ہے خود اپنا لہو مجھے

10-
ڈر کر شجر سے اُڑ گئی پتوں کی ایک ڈار
تُو قتل کر رہا تھا مرے رُوبرو مجھے

11-
بہانے اس کی باتوں میں زمانے اس کے ہاتھوں میں
فسانے اس کی آنکھوں میں حقیقت اس کے چہرے پر

12-
وہ لوگ مطمئن ہیں کہ پتھر ہیں ان کے پاس
ہم خوش ہیں کہ ہم نے آئینہ خانے بنائے ہیں

13-
ہم تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تمام عمر
آنکھوں نے اتنی دور ٹھکانے بنائے ہیں

14-
سب ادائیں تشنگی کی، سب دعائیں زیست کی
بند کمرے میں پڑی ہیں، صحن میں سیلاب ہے

بے ردا، دامن دریدہ، پابجولاں، سرنگوں
آج کس کو زندگی کے دیکھنے کی تاب ہے

15-
شہر کا کوئی رابطہ، دہر کا کوئی ضابطہ
کاش نہ دخل دے سکے دل کے معاملات میں

16-
ذہن میں نور بو گیا آنکھ میں اشک ہو گیا
آج خیالِ یار بھی قید ہے ذات پات میں

17-
غم کی تصویر بہت مشکل تھی
اپنی تصویر دکھا دی ہم نے

18-
جن میں احوال تھے گزرے ہوئے سیلابوں کے
بہہ گئیں اب وہ کتابیں بھی در و بام کے ساتھ

19-
ویراں سمجھ کے شاخِ نشیمن نہ کاٹیے
شام آئی تو پرندے پلٹ کر بھی آئیں گے

20-
خیال بزم میں پہنچا تھا گنگناتا ہوا
نگاہ چہرے سے لوٹی ہے ہاتھ ملتے ہوئے

21-
درد کو شکل نہ دے آہ کو تجسیم نہ کر
عقل کہتی ہے کسی ربط کو تسلیم نہ کر

>

22-
پھر نہ گِھر جائیں کسی شہر کے ہنگاموں میں
ہم بیاباں سے بہت دور نکل آئے ہیں

23-
پندار کو شکست کا احساس کھا گیا
زندہ کہاں رہا ہوں مَیں ہتھیار ڈال کر

24-
ہر آدمی پہ سائے کا ہونے لگا گماں
یارب مری نگاہ کی قوت بحال کر

قاصرؔ نے رُخ پہ جمنے نہ دی منزلوں کی گرد
آنکھوں سے کوئے یار کی راہیں نکال کر

25-
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے

26-
سارے مکیں تھے محوِ خواب
جلتا رہا مکانِ دل

27-
پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پُوری کائنات بنا

28-
میں نئے زاویے سے دیکھتا ہوں
ورنہ تصویر تو پُرانی ہے

29-
دیکھنے سے مُرجھائے تو وہ لاج وَنتی ہے
ایک بار روٹھے تو مشکلوں سے منتی ہے

30-
ہجرِ ٹکسال میں ڈھالے گا غزل کے سِکے
تیری محفل میں کبھی بول نہ سکنے والا

31-
تری یاد کی برف باری کا موسم
سلگتا رہا دل کے اندر، اکیلے

ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں اِک دسمبر اکیلے

زمانے سے قاصرؔ خفا تو نہیں ہیں
کہ دیکھے گئے ہیں وہ اکثر اکیلے

32-
تھم گئی یوں پھوار جذبوں کی
تیری تصویر چھو کے ہاتھ جلے

33-
ایک آنچل کی آنچ سے قاصرؔ
ہم جلے اور تا حیات جلے

34-
تری پسند کی چیزیں خریدنے والے
تری پسند کی چیزوں کے نام بھول گئے