اختر عثمان کی شاعری (حصہ دوم)

21- ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ غم کچھ نہیں کہتے یوں ہے کہ ترے سامنے ہم کچھ نہیں کہتے  اپنے لیے اک درجہ بنا رکھا ہے ہم نے معیار ہے، معیار سے کم کچھ نہیں کہتے  22- منھ بسورے ہوئے بچوں کی طرح پڑ رہنا پُرسشِ حال پہ کہہ دینا کہ ہم اچھے ہیں  23- خاک زادے، نظرِ حسن میں جینے والے رہ گئے جانے کہاں دوست قرینے والے  شہر خالی ہے کسے عید مبارک کہیے چل دیے چھوڑ کے مکہ بھی مدینے والے  24- کم کم ہیں اب جہاں میں تراشیدہ صورتیں اِک آئنہ تمام تب و تاب لے گیا  25- مہلتِ یک نفس جو ہے، دار پہ جاؤ پَے بہ پَے پھر یہ سمے گزر نہ جائے، پھر یہ نشہ اتر نہ جائے  26- شعورِ فاصلہء خیر و شر دیا ہے مجھے تری نگاہ نے تبدیل کر دیا ہے مجھے  27- سفر میں چند مراحل کڑے پڑے ہیں تو کیا ہمیں جنوں تھا کہ رستہ بجھا بجھا نہ رہے  28- رات ڈھلنے کو ہے، اور آخری گاڑی والا مجھ سے کہتا ہے کہ تجھ کو بھی کہیں جانا ہے!  29- جہان دیکھنا پڑتا ہے اک نگہ میں مجھے میں شش جہات کو، خود کو، تجھے بھی دیکھتا ہوں  30- یہی آشفتہ مزاجی تھی، یہی گرم رَوی تجھ کو دیکھیں تو یہ لگتا ہے کہ ہاں، تھے ہم بھی  31- کسی خیال، کسی وسوسے میں کھوئی ہوئی وہ آج پھر نظر آئی تھی روئی روئی ہوئی  32- زندگی! اب کوئی آہنگِ جدا، رنگِ دِگر ہمم تو اُکتا گئے اک وقت میں رہتے رہتے  33- میں اِسی آئینہ خانے میں، انہی لوگوں میں تھا، مگر اب جو نہیں ہوں تو سبب ہے کوئی  34- حیران ہے اِس بات پہ انبوہِ اسیراں پر کُھلنے کی تقریب میں صیاد بھی آئے  35- ترے جمال کی تجسیم سہل کام نہیں یہ معجزہ بھی مرے شعر کی صفائی ہے  36- وہ بھی نہ کھلا، بستہء پندار تھے ہم بھی خاموش تھا وہ، صورتِ دیوار تھے ہم بھی  37- ہم خجل خوار سہی، بے در و دیوار سہی ہم پہ کھلتی ہیں بہرگام پناہیں اُس کی  38- ہستی کا اگر ہے کوئی مفہوم تو یہ ہے زخموں میں کوئی روز کٹے، کوئی رفو میں  39- اک تار تو ہو بہارِ رفتہ! امکان کا چاک بے رفو ہے  شاید کوئی نقش سَر اُبھارے کچھ دن سے لہو میں ہاؤ ہُو ہے  40- تہذیبِ خستہ دم ہوں مرا اعتبار کیا فُرصت ملے تو ایک نظر دیکھ جا مجھے

21-
ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ غم کچھ نہیں کہتے
یوں ہے کہ ترے سامنے ہم کچھ نہیں کہتے

اپنے لیے اک درجہ بنا رکھا ہے ہم نے
معیار ہے، معیار سے کم کچھ نہیں کہتے

22-
منھ بسورے ہوئے بچوں کی طرح پڑ رہنا
پُرسشِ حال پہ کہہ دینا کہ ہم اچھے ہیں

23-
خاک زادے، نظرِ حسن میں جینے والے
رہ گئے جانے کہاں دوست قرینے والے

شہر خالی ہے کسے عید مبارک کہیے
چل دیے چھوڑ کے مکہ بھی مدینے والے

24-
کم کم ہیں اب جہاں میں تراشیدہ صورتیں
اِک آئنہ تمام تب و تاب لے گیا

25-
مہلتِ یک نفس جو ہے، دار پہ جاؤ پَے بہ پَے
پھر یہ سمے گزر نہ جائے، پھر یہ نشہ اتر نہ جائے

26-
شعورِ فاصلہء خیر و شر دیا ہے مجھے
تری نگاہ نے تبدیل کر دیا ہے مجھے

27-
سفر میں چند مراحل کڑے پڑے ہیں تو کیا
ہمیں جنوں تھا کہ رستہ بجھا بجھا نہ رہے

28-
رات ڈھلنے کو ہے، اور آخری گاڑی والا
مجھ سے کہتا ہے کہ تجھ کو بھی کہیں جانا ہے!

29-
جہان دیکھنا پڑتا ہے اک نگہ میں مجھے
میں شش جہات کو، خود کو، تجھے بھی دیکھتا ہوں
30-
یہی آشفتہ مزاجی تھی، یہی گرم رَوی
تجھ کو دیکھیں تو یہ لگتا ہے کہ ہاں، تھے ہم بھی
31-
کسی خیال، کسی وسوسے میں کھوئی ہوئی
وہ آج پھر نظر آئی تھی روئی روئی ہوئی

32-
زندگی! اب کوئی آہنگِ جدا، رنگِ دِگر
ہمم تو اُکتا گئے اک وقت میں رہتے رہتے

33-
میں اِسی آئینہ خانے میں، انہی لوگوں میں
تھا، مگر اب جو نہیں ہوں تو سبب ہے کوئی

34-
حیران ہے اِس بات پہ انبوہِ اسیراں
پر کُھلنے کی تقریب میں صیاد بھی آئے

35-
ترے جمال کی تجسیم سہل کام نہیں
یہ معجزہ بھی مرے شعر کی صفائی ہے

36-
وہ بھی نہ کھلا، بستہء پندار تھے ہم بھی
خاموش تھا وہ، صورتِ دیوار تھے ہم بھی

37-
ہم خجل خوار سہی، بے در و دیوار سہی
ہم پہ کھلتی ہیں بہرگام پناہیں اُس کی

38-
ہستی کا اگر ہے کوئی مفہوم تو یہ ہے
زخموں میں کوئی روز کٹے، کوئی رفو میں

39-
اک تار تو ہو بہارِ رفتہ!
امکان کا چاک بے رفو ہے

شاید کوئی نقش سَر اُبھارے
کچھ دن سے لہو میں ہاؤ ہُو ہے

40-
تہذیبِ خستہ دم ہوں مرا اعتبار کیا
فُرصت ملے تو ایک نظر دیکھ جا مجھے