اب کے یوں نکلیں اُفق سے بادلوں کی ٹولیاں - اسلم کولسری

اب کے یوں نکلیں اُفق سے بادلوں کی ٹولیاں
جس طرح مفلس کے گھر سے بیٹیوں کی ڈولیاں

 وقت نے کیا کیا مقدس روپ گھائل کر دیے
چاندنی، برکھا، پون، گاگر، ندی، ہمجولیاں

تجھ سے وابستہ مناظر بھی تو افسانہ ہوئے
شام، گہری خامشی، کچی سڑک، ہَرنولیاں

کون سی رُت آنے والی ہے کہ جس کے شوق میں
شہر کی سڑکوں پہ ناچیں خوں اڑاتی ہولیاں

گونجتے گاؤں، اُجڑ کر رہ گئے، لیکن وہاں
آج بھی آباد ہیں، میٹھی، رسیلی بولیاں

کس طرح چنچل چکوری، چاند کی چاہت کرے
بے طرح اکتا گئیں ہیں دامنوں سے چولیاں

تتلیوں کی جستجو میں گھر نکلا تھا مگر
جھاڑیوں میں اُڑ رہی تھیں سنساتی گولیاں

شعر، شعرینی کو ترسیں، اس طرح اسلمؔ مرے
جیسے میلے میں یتیموں کی بلکتی جھولیاں

--------
اسلم کولسری