آہ پر خوبصورت اشعار کا مجموعہ

لفظ آہ پر اشعار کا مجموعہ

سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
(احمد فراز)

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
(اکبر الٰہ آبادی)

نہ ہو آزردہ ہم سے تو خدا کو مان ناکامی
نہ کھینچیں گے اُسے جس آہ میں تاثیر دیکھیں گے
(مائل دہلوی)

ہر دم آتی ہے گرچہ آہ پر آہ
پر کوئی کارگر نہیں آتی
(میر اثرؔ)

ہم وہ نہیں کہ اس کو بھی رکھیں حساب میں
جس آہ کا کہ چرخِ نہم تک گزر نہ ہو
(نامعلوم)

وہ آہ کروں نالۂ اغیار سے پہلے
جھانکیں وہ مجھے روزنِ دیوار سے پہلے
(نامعلوم)

نہ اُٹھے آہ کا دھواں بھی کہ وہ
کوئے دل میں خرام کر رہے ہیں
(جون ایلیا)

آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی
(اکبر الہ آبادی)

میں آہیں سرد بھرتا ہوں سو رہیے چین سے
آئیگی نیند آپ کو ٹھنڈی ہوا کے ساتھ
(نامعلوم)

میری صورت سے نہ تھے عشق کے ظاہر آثار
کھچ گئی آہ بھی شاید مری تصویر کے ساتھ
(بیخود دھلوی)

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جاؤ۔ دے دو راہ جانے کے لیے
(آغا حشرؔ کاشمیری)
 
آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
(مرزا نوشہ)

آہ طولِ امل ہے روز فزوں
گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا
(مومن خاں مومن)

یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
(میر تقی میر)

کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رُخصت ہی سہی
(مرزا غالب)

عادت کے بعد درد بھی دینے لگا مزا
ہنس ہنس کے آہ آہ کیے جا رہا ہوں میں
(جگر مراد آبادی)

ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے
مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے
(جگر مراد آبادی)

اے حفیظؔ آہ آہ پر آخر
کیا کہیں دوست واہ واہ کے سوا
(حفیظ جالندھری)

تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کافر تھا جس نے آہ نہ کی
(فیض احمد فیض)