نظم وقت ۔ وامق جونپوری

نظم وقت ۔ وامق جونپوری

زندگی اک متحرک جادہ
ارتقا جس کا مدار
باد و آب و گِل و نار
زندگی جہد مسلسل پہ سدا آمادہ
زندگی اِک متحرک جادہ

زندگی حلقہء ایجاد کی اک لامتناہی زنجیر
زندگی تیشہء مزدور سے ترشی ہوئی پانی کی لکیر
وقت کی رَو میں بہی جاتی ہے
وقت کی چھوٹی سی تصویر کہی جاتی ہے

وقت اِک جُوئے رواں
بیکراں
سیلِ گراں
وقت کا کوئی کنارہ ہے نہ اس کی کوئی تھاہ
اس کی ہر موج ہزاروں صدیاں
جزر و مد اس کے تواریخِ جہان گزراں

وقت رفتا ہے لمحات کا اِک دھارا ہے
وقت دلدار و جہاندار و جہان آرا ہے
وقت دوار ہے
تخلیق کا گہوارہ ہے
وقت فنکار ہے
تہذیب کا فوارا ہے

وقت کے ہاتھوں کا ڈھالا ہوا شہکار انساں
صدف بطنِ زمیں کا دُر شہوار انساں

وقت ادراک و کمالات نظر دیتا ہے
پائے افکار کو توفیقِ سفر دیتا ہے

وقت دیدہ در و صورت گرد معمار بھی ہے
وقت کے ہاتھوں میں تخریب کی تلوار بھی ہے

وقت کی نوک رگِ جاں سے قریب
وقت کی کاٹ بدلتی ہوئی قدروں کی نقیب
کبھی مٹی سے اگلواتا ہے الماس و گہر
کبھی زرہ کو بنا دیتا ہے شعلوں کا شجر
وقت جب چاہتا ہے حکمِ اجل دیتا ہے
وقت اک پھونک میں صورت ہی بدل دیتا ہے

وقت کی سانس ہے طوفانوں کا آہنگِ خرام
اس کی ہر جنبشِ مژگاں ہے تغیر کا پیام
اتفاقات کھلونے اس کے
حادثات دو جہاں وقت کے ہیں بازیچے
انقلاب اس کا مزاج
وقت ہر غم کا علاج

وقت ساقی بھی ہے بادہ بھی ہے پیمانہ بھی
پیاس بھی نشہ بھی، مے ساز بھی میخانہ بھی
اپنے رندوں کو عطا کرتا ہے اُس زہر کا جام
جس کا ہر گھونٹ ہے پروانہء جاگیرِ دوام
امتحاں کے لیے ظالم کو پناہ دیتا ہے تاج
خون کے سکوں میں عشاق سے لیتا ہے خراج
دور سے چاہنے والوں کو نظر آتا ہے
اور جھپکتے ہی نظر سن سے گزر جاتا ہے 
اس کے قدموں کے نشانات مہہ و مہر و نجوم
اس کی سنجیدگی طبع کتابات و علوم
رنگ بو اس میں کوئی ہے تو وہ ہے صحنِ چمن
اس کا زینہ ہے اگر کوئی تو وہ دار و رَسن

وقت مستقبل و ماضی کے سوا کچھ بھی نہیں
حال اک وہم ریاضی کے سوا کچھ بھی نہیں
حال ناپید سی شے ہے مثل خط اقلیدس
اک گمان ایک خلش
جس می ںاک آن کا ٹھہراؤ نہیں
ایک لمحہ کا بھی پھیلاؤ نہیں

وقت کی سرعت و قوت کی کوئی ناپ نہیں
جوہر و روشنی و برق نہیں بھاپ نہیں
وقت محدود حصارات نہیں
وقت پابندِ خیالات نہیں
نہ کوئی شام ہے اس کی نہ کوئی اس کی سحر
کوئی خالی نہیں اس سے نہ خلا اور نہ ہوا
نہ کوئی دشت نہ در
وقت ہر شے پہ ہے محیط
ایک آغوشِ بسیط

اس کے امکان میں اعداد کی پہنائی ہے
اس کی قدرت میں قیامت کی توانائی ہے
اس میں برنائی ہے دارائی ہے گیرائی ہے
وقت بیگانہء دستور ہے ہرجائی ہے
کبھی جلوت میں نہاں اور کبھی خلوت میں عیاں
خود تماشہ بھی ہے اور خود ہی تماشائی ہے
وقت اک ٹھوس حقیقت ہے نگاہوں سے پرے
اک گراں مایہ لطافت ہے گمانوں سے پرے
سنگ و آہن کے سمندر میں تلاطم سا ہے
اک عجب سکتہ کا عالم ہے یہ عقدہ ہے
کتنے تاریک مہ و مہر شعاعوں سے بعید
ایک طوفان سوالوں کا جوابوں کا بعید
ایک حیرت کا جہاں سات فصیلوں سے اُدھر
وقت ہی وقت ہے وجدان کے پردوں کے اُدھر

وقت دیرینہ و لافانی ہے
وقت یکتائی میں لاثانی ہے
جب نہ تھا کچھ تو فقط تھا یہ وقت
اور جب کچھ نہ رہیگا تو رہیگا یہ وقت
ابتدا کوئی نہ اس کی نہ کوئی اس کا عدم
ایک وحدت جو کبھی بیش نہ کم
اس کا خالق نہیں کوئی نہ کوئی اس سے بڑا
یہی شاید ہے خدا ۔۔۔۔۔!

Ad blocker detected!

We have detected that you are using adblocking plugin in your browser.
The revenue we earn by the advertisements is used to manage this website, we request you to whitelist our website in your adblocking plugin.