ہم اس کے ہیں امجد اسلام امجد

ہم اس کے ہیں امجد اسلام امجد

کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصرؔ
یہ قافیہ پیمائی، ذرا کر کے تو دیکھو
 
اسی بات کو اگلے وقتوں میں قبلہ میر تقی میرؔ نے کچھ یوں بیان کیا تھا کہ
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خُوں کروں ہوں میں

غزل کی اس قدر مضبوط کلاسیکی روایت اور موجودہ تخلیقی عمل اور امکانات سے پُر صورت حال میں کسی بھی غزل گو شاعر کے لیے ایسا نام حاصل کرنا جو ایک حوالہ بن جائے جُوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ ناصرؔ کاظمی مرحوم کہا کرتے تھے کہ جب وہ کوئی غزل کہہ لیتے ہیں تو تصور میں میرؔ و غالبؔ کو سامنے بٹھا کر ان کو سناتے ہیں اور ان کے اشارۂ چشم و ابرو یا داد کے کلمات کی روشنی میں اس غزل کا مقام متعین کرتے ہیں۔ جب ناصرؔ جیسے عمدہ اور باکمال شاعر کا یہ حال ہے تو ہم جیسے لوگوں کو تو کوئی دعویٰ کرتے وقت دس بار سوچنا چاہیے۔ 

مجھے خوشی ہے کہ نظموں کے ساتھ ساتھ میری غزلوں کے قارئین کا بھی ایک خاصا بڑا حلقہ قائم ہو گیا ہے۔ میرے لیے اتنی ہی پزیرائی بہت ہے کہ بڑے لوگوں کے گروپ فوٹو میں جگہ مل جانا بھی اپنی جگہ پر ایک عزت اور افتخار کی بات ہوتی ہے۔ 
(امجد اسلام امجد)