باتیں کرتے دن از امجد اسلام امجد

باتیں کرتے دن از امجد اسلام امجد

آگ اندر کی ہے کہ باہر کی
کچھ نہیں سوجھتا الاؤ میں

شہر میں آ گئے مضافاتی
بتیاں دیکھنے کے چاؤ میں

پھر کسی چارہ گر کی یاد آئی
بہتری آ چلی تھی گھاؤ میں

اس کو دل سے لگا نہیں لیتے
بات جو ہو گئی ہو تاؤ میں

بک رہی ہے اصول کی عزت
آج کل کوڑیوں کے بھاؤ میں

سوجھتے ہیں نئے نئے مضموں
ہو طبیعت اگر اٹھاؤ میں

یہ محبت عجیب بازی ہے
رخ بدلتی ہے ایک داؤ میں

جو حقیقت میں دوست ہوں امجدؔ
لاگ رکھتے نہیں لگاؤ میں