برزخ از امجد اسلام امجد

برزخ از امجد اسلام امجد

شاعری کی وادی سے گزرتے ہوئے قاری کے بھی پَر لگ جاتے ہیں۔ نئی آہٹیں اور نئی آوازیں اس طرح سنائی دیتی ہیں جیسے بادل بروقت برسیں۔ امجد اسلام امجد کی شاعری بھی اپنے قاری کو اس طرح متوجہ کرتی ہے۔ زندگی کی سرحدیں نہیں ہوتیں اور ہمیشہ آگے بڑھتی ہوئی یہی زندگی ان کی شاعری کا سرچشمہ ہے۔ یہاں محبت کرب بھی ہے اور مسرت بھی۔ مسرت سرشاری کا وسیلہ بنی ہے اور کربِ آگہی کا بھی۔ اور اگرم ہم سن سکیں تو ہمیں امجد اسلام کی شاعری میں جوانی اور شادمانی کے نغمے بھی سنائی دیں گے اور قاتل قدموں کےنیچے آنے والی سرزمیں وطن کی دلدوز کراہ بھی سنائی دے گی۔ یہی دلدوز کراہ بوئے مقتل بن کر شہرِ وفا شعاراں میں امجد اسلام امجد کو عوام دوستی کا نقیب بنا دیتی ہے۔ (صلاح الدین محمد)