محسن بھوپالی ک تمام قطعات


محسن بھوپالی نے نہ صرف قطعے کی گزشتہ تیس چالیس برس کی روایت س استفادہ کیا ہے بلکہ اس نے قعطے کے کینوس کو مزید وُسعت بھی دی ہے۔ اس نے اپنے قطعات میں سیاسی، معاشرتی، اور تہذیبی مسائل کو موضوع بنایا ے اور اسے محض حسن و عشق کے مسائل میں محدود نہیں رکھا۔ پھر قطعے کو قاری کے دل میں اُتارنے کے لیے اس کے پاس ایک نہایت مؤثر ہتھیار موجود ہے اور یہ اس کا طنزیہ لہجہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس کے بیشتر قطعات کے آخری مصرعوں کا نکیلا طنز قاری کے ذہن میں پیوست ہو جاتا ہے۔ 

1-
تاریخ ہے گواہ کہ میں ہوں انا سرشت
خم ہے ترے حضور سرِ بے نیاز بھی
میری شناخت مجھ سے طلب کر نہ اے زمیں
پھر زیرِ بحث آئے گا تیرا جواز بھی

2-
کیوں یہ مجبوریاں گِناتے ہو
ایک اک بات مانتا ہوں میں
اک وضاحت کی کیا ضرورت ہے
چہرہ پڑھنا بھی جانتا ہوں میں

3-
دیتا ہے کس کا ساتھ زمانہ تمام عمر
رازِ درونِ پردہ کبھی کھولتا بھی ہے
اے شخص خامشی کو نہ تائیدِ حق سمجھ
شاہد ہے کربلا کہ لہو بولتا بھی ہے

4-
دیوارِ چمن لاکھ اٹھاتے رہو لیکن
خوشبو کو بکھرنے سے نہ تم روک سکو گے
فطرت کے بھی بس میں نہیں فطرت کا بدلنا
سورج کو ابھرنے سے نہ تم روک سکو گے

5-
بے وجہ ہر کسی کو ستانے کا شوق تھا
کاپی میں تتلیوں کو سجانے کا شوق تھا
اب یوں ہی در بدر کہ لڑکپن کے دَور میں
شاخوں سے آشیانے گرانے کا شوق تھا

6-
تم مری راہ دیکھتے تھے کبھی
اب مجھے دیکھنے نہیں آتے
اچھے وقتوں میں اتنا یاد رکھو
دن برے بول کر نہیں آتے

7-
پھر وہی صورتِ حالات ہوئی جاتی ہے
صبح آئی بھی نہیں رات ہوئی جاتی ہے
اس کو محرومیِ قسمت کے سوا کیا کہیے
کھیل کھیلا بھی نہیں مات ہوئی جاتی ہے

8-
ہوش سے کام لے لیا میں نے
بڑھ کے اک جام لے لیا میں نے
مل گئی مجھ کو سب غموں سے نجات
جب ترا نام لے لیا میں نے

9-
بات بے بات کے بنتے تھے فسانے کیا کیا
اک زمانے میں گزارے ہیں زمانے کیا کیا
بھول جاتے تھے کبھی اس سے جو وعدہ کر کے
یاد آ جاتے تھے یک لخت بہانے کیا کیا

10-
احتیاطاََ میں بچ کے نکلا تھا
کیا خبر تھی کہ سامنا ہوگا
پھر وہ دیکھیں گے چور نظروں سے
پھر مجھے دل کو تھامنا ہوگا

11-
ان کے ناز و ادا بھی بھول گئے
ذکرِ جور و جفا بھی بھول گئے
یاد تھیں سیکڑوں مناجاتیں
اب تو حرفِ دُعا بھی بھول گئے

12-
جان پہچان کم سے کم رکھیے
سر پہ احسان کم سے کم رکھیے
دیکھ کر بھی تو لوگ جلتے ہیں
ظاہر شان کم سے کم رکھیے

13-
آنکھ بے وجہ نم نہیں ہوتی
کچھ نہ کچھ تو سبب رہا ہوگا
یا کوئی چیز پڑ گئی ہوگی
یا کوئی یاد آ گیا ہوگا

14-
چڑھتے سورج کو گالیاں دینا
مشغلہ ہے یہی اندھیروں کا
شب پرستوں کے روٹھ جانے سے
کام رکتا نہیں سویروں کا


15-
رندانِ تشنہ لب کو وہاں کون پوچھتا
ہر بے شعور مست جہاں ہاؤ ہو میں تھا
محسنؔ مرے لیے یہی اعزاز کم نہیں
میں اس کی انجمن میں نہ تھا گفتگو میں تھا

16-
 کچھ اس میں دخل نہ ہو میرے نرم لہجے کا
بنائے تلخ کلامی ضرور ہے کوئی
وہ بے سبب ہے، بلاواسطہ ہے یا بے لوث
مرے خلوص میں خامی ضرور ہے کوئی

17-
اب کیا یقین آئے کہ شک رہگزر میں ہے
منزل کا اعتبار بھی شامل خبر میں ہے
افسوس یہ نہیں ہے کہ وعدے بھلا دیے
حیرت یہ ہے وہ اب بھی صفِ معتبر میں ہے

18-
اس نے کھل کر سچ کا تو اظہار کیا
خوش ہوں وعدہ کرنے سے انکار کیا
جب تک تھا بے لوث تعلق قائم تھا
میں نے اپنی خواہش کو دیوار کیا

19-
تردید کی سب خبریں اخبار سے ملتی ہیں
اخبار کی تردیدیں دیوار سے ملتی ہیں
کیا نثر میں رکھا ہے جز مدح وثنا محسنؔ
اب کام کی باتیں بھی اشعار سے ملتی ہیں

20-
دخل ہوتا ہے کچھ نظر کو بھی
دلکشی بے سبب نہیں ہوتی
کسی طوفاں کی آمد آمد ہے
خامشی بے سبب نہیں ہوتی

21-
اب حرفِ انبساط سے بھی کانپتا ہے دل
گزرا ہے ایسا دَور کہ جب غم بھی راس تھا
ہونا بھی چاہیے تھا اسے میرے روبرو
وہ شخص ہی تو میرے کبھی آس پاس تھا

22-
ایک ایک لفظ کے بھی معانی ہیں تہہ بہ تہہ
ہوتی نہیں ہے بات بھی اب بات کی طرح
اذنِ کلام ملتا ہے احساں کی شکل میں
دادِ سخن بھی دیتے ہیں خیرات کی طرح

23-
اربابِ نوا رنگِ نوا دے نہیں سکتے
احساس کو لفظوں کی قبا دے نہیں سکتے
آواز کا س درجہ کبھی قحط نہیں تھا
اب لوگ صدا پر بھی صدا دے نہیں سکتے

24-
انتقاماََ مجھ کو وہ درسِ وفا دے جائے گا
زخم لے کر اک دلِ درد آشنا دے جائے گا
کس قدر نادم ہوا ہوں میں بُرا کہہ کر اُسے
کیا خبر تھی جاتے جاتے وہ دعا دے جائے گا

25-
ٹھہرے ہوئے موسم سے توقع ہی غلط ہے
کیا بات بنے جب کہ کوئی بات نہیں ہے
بہتر ہے کہ حالات کی صورت کو تکے جاؤ
اب اور کوئی صورتِ حالات نہیں ہے

26-
وہ جن گھروں کی فضا خوشگوار ہوتی ہے
انہی گھروں میں تو اکثر خوشی نہیں ہوتی
ہر ایک شخص کو تفصیل مت بتا محسنؔ
ہر ایک شخص کو سن کر خوشی نہیں ہوتی

27-
دنیا نے سکھا دیا ہے جینا
اپنوں سے نباہ کر رہا ہوں
بستی میں بدل نہ جائے اک دن
صحرا کو گواہ کر رہا ہوں

28-
اس کو پڑھتا ہوں یہ سمجھتے ہوئے
وہ کسی اور کے نصاب میں ہے
بے حقیقت سہی، مگر محسنؔ
کچھ نہ کچھ تو کشش سراب میں ہے

29-
محاذِ جنگ سے پسپائیاں وت جائز ہیں
محبتوں میں مگر واپسی نہیں ہوتی
خیال آئے تو دل کی طرف چلے آنا
بہت دنوں سے یہاں روشنی نہیں ہوتی

30-
یہ زمیں آسمان ہے پیارے
اپنی اپنی اڑان ہے پیارے
ہم نے چاہا تھا ہم نہ چاہے گئے
کُل یہی داستان ہے پیارے

31-
اسی کا سامنا ہر وقت ہے جو
بظاہر سامنے سے ہٹ گیا ہے
وطن اہلِ وطن کا کب ہے محسنؔ
وطن اہلِ زمیں میں بٹ گیا ہے

32-
ابلاغ کے لیے نہ تم اخبار دیکھنا
ہو جستجو تو کوچہ و بازار دیکھنا
ایسا نہ ہو کہ حشر میں وجہِ سزا بنے
ہفتے میں ایک شبیہہ کا چھ بار دیکھنا