ادب میں خارجیت کیا ہے؟ خارجیت کی مثالیں

ادب میں خارجیت کیا ہے؟ خارجیت کی مثالیں

خارجیت، داخلیت کی ضد ہے۔ خارجیت کے معنی ظاہر داری اور ظاہر پرستی کے ہیں۔ ادبی اصطلاح میں خارجیت کا مفہوم یہ ہے کہ کلام میں ظاہری حسن و جمال کے بیان، سراپا نگاری اور محبوب کے خد و خال کے تصویر کشی پر زیادہ زور دیا جائے۔ خارجیت در اصل بیرون بینی کا نام ہے اور بالعموم یہ اصطلاح دبستانِ لکھنؤ کی شاعری کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے استعمال کی جاتی ہے۔ 

یوسف حسین خاں غزل کے حوالے سے خارجیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خارجیت جب غزل میں برتی جاتی ہے تو محبوب کے خد و خال لب و دنداں، چال ڈھال، زلف و رخسار اور قدو و قامت کے بیان میں شاعر اتنا منہمک ہو جاتا ہے کہ داخلی زندگی کے احوال پیش کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
(اردو غزل: یوسف حسیں خاں، ص 257)

اردو شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے

آیا ہے صبح نیند سے اٹھ رسمسا ہوا
جامے گلے میں رات کا پھولوں بسا ہوا
(آبرو)
کھلا جو نشہ میں پگڑی کا پیچ اس کی میرؔ
سمندِ ناز پہ اک اور تاز یانہ ہوا
(میر تقی میر)

ساحل کی تعمیر نے اپنا عکس جو ڈالا پانی میں
ایک شوالا پانی پر تھا ایک شوالا پانی میں
(شوقؔ اثری)

کسی غریب کو انصاف بھی نہیں ملتا
گواہ جا کے عدالت میں ٹوٹ جاتے ہیں
(شکلی جمالی)

شاعری میں نری خارجیت نری غیر مستحسن ہے اور نہ ہی ممکن ہے لیکن علمی معاملات میں خارجیت سب سے مستحن عمل ہے اس لیے علمی میدان میں اس اصطلاح کا ترجمہ معروضیت کیا گیا ہے۔