تضمین سے کیا مراد ہے؟ دیکھیے جامع اور مفصل تعریف

تضمین سے کیا مراد ہے؟ تضمین عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں "کسی کو اپنا ضامن کرنا" پناہ میں لانا، کسی کے شعر کو اپنے اشعار میں شامل کر لینا۔ تضمین علم قافیہ، علم بدیع اور بلاغت کی اصطلاح ہے جو اردو میں عربی و فارسی زبانوں کے ذریعے رائج ہوئی۔   علم قافیہ کی اصطلاح میں تضمین قافیے کے ایسے استعمال کو کہا جاتا ہے جس میں ایک مصرع کا قافیہ معنی کے اعتبار سے دوسرے مصرع میں شامل ہوتا ہے۔ طوسی تضمین کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: تضمین و آں تعلق آخر بیت بود باول دیگر بیت۔  (معیار الاشعار: طوسیؔ، ص 73)  فارسی کے اکثر علمائے قافیہ کے نزدیک تضمین قافیے کا عیب ہے۔ لیکن اردو میں دیبی پرساد سحرؔ اور نجم الغنی خاں نے تضمین کو عیب نہیں مانا حالانکہ تضمین کا ذکر عیوب کے ذیل میں کیا ہے۔ اس سلسلے میں نجم الغنی خاں لکھتے ہیں: اگرچہ اس عیب میں داخل ہونا کوئی وجہ نہیں رکھتا اور حق وہی  ہے جو مولوی صہبائی کہہ گئے مگر ناچار تقلید گزشتگاں ہم نے بھی عیوب میں لکھ دیا ہے۔  (بحر الفصاحت: نجم الغنی خاں، ص 321)  حقیقت یہ ہے کہ تضمین کو قافیے کا عیب نہیں کہا جا سکتا جس کی وجہ یہ ہے کہ قافیہ اپنے حروف و حرکات کی بنا پر متعین ہوتا ہے اگر ان چیزوں میں کمی و بیشی واقع ہوتی ہے تو وہ چیزیں قافیے کے عیب میں داخل ہونگی لیکن قافیے کا معنی کے اعتبار سے ٹوٹنا بیان کا عیب ہے۔   کئی دن بعد ایک شب تنہا اتفاقاََ ملی وہ مہ سیما (مومنؔ)  اس شعر کے پہلے مصرع کا قافیہ تنہا جملے کے معنی کے اعتبار سے دوسرے مصرع میں شامل ہے۔   ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں  کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے (غالب)  ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں اتنا اونچا نہ بولیے صاحب (محمد علی موجؔ)

 تضمین سے کیا مراد ہے؟

تضمین عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں "کسی کو اپنا ضامن کرنا" پناہ میں لانا، کسی کے شعر کو اپنے اشعار میں شامل کر لینا۔ تضمین علم قافیہ، علم بدیع اور بلاغت کی اصطلاح ہے جو اردو میں عربی و فارسی زبانوں کے ذریعے رائج ہوئی۔ 

علم قافیہ کی اصطلاح میں تضمین قافیے کے ایسے استعمال کو کہا جاتا ہے جس میں ایک مصرع کا قافیہ معنی کے اعتبار سے دوسرے مصرع میں شامل ہوتا ہے۔ طوسی تضمین کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تضمین و آں تعلق آخر بیت بود باول دیگر بیت۔ 
(معیار الاشعار: طوسیؔ، ص 73)

فارسی کے اکثر علمائے قافیہ کے نزدیک تضمین قافیے کا عیب ہے۔ لیکن اردو میں دیبی پرساد سحرؔ اور نجم الغنی خاں نے تضمین کو عیب نہیں مانا حالانکہ تضمین کا ذکر عیوب کے ذیل میں کیا ہے۔ اس سلسلے میں نجم الغنی خاں لکھتے ہیں:
اگرچہ اس عیب میں داخل ہونا کوئی وجہ نہیں رکھتا اور حق وہی  ہے جو مولوی صہبائی کہہ گئے مگر ناچار تقلید گزشتگاں ہم نے بھی عیوب میں لکھ دیا ہے۔ 
(بحر الفصاحت: نجم الغنی خاں، ص 321)
حقیقت یہ ہے کہ تضمین کو قافیے کا عیب نہیں کہا جا سکتا جس کی وجہ یہ ہے کہ قافیہ اپنے حروف و حرکات کی بنا پر متعین ہوتا ہے اگر ان چیزوں میں کمی و بیشی واقع ہوتی ہے تو وہ چیزیں قافیے کے عیب میں داخل ہونگی لیکن قافیے کا معنی کے اعتبار سے ٹوٹنا بیان کا عیب ہے۔ 

کئی دن بعد ایک شب تنہا
اتفاقاََ ملی وہ مہ سیما
(مومنؔ)

اس شعر کے پہلے مصرع کا قافیہ تنہا جملے کے معنی کے اعتبار سے دوسرے مصرع میں شامل ہے۔ 

ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں 
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
(غالب)

ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں
اتنا اونچا نہ بولیے صاحب
(محمد علی موجؔ)