رئیس فروغ کی شاعری
1-
اِک پیڑ ہوا کے ساتھ چلا
پھر گرتے گرتے سنبھل گیا
2-
مٹی کے کھلونے لینے کو
میں بالک بن کے مچل گیا
3-
ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ
اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں
میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
4-
کس دکاں سے لاؤں میں
اپنے ہونے کا یقیں
5-
ذرا بھی تیز ہوا شعلہء نوا تو یہ لوگ
یہی کہیں گے کہ درویش بے اَدب ہے میاں
6-
ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں
جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے
7-
اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
8-
اپنی مٹی کو سرفراز نہیں کر سکتے
یہ در و بام تو پرواز نہیں کر سکتے
حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پسِ انداز نہیں کر سکتے
9-
یہ سوچتے ہیں کہ اس بار ہم سے ملنے کو
وہ اپنے بال کس انداز سے سنوارے گا
10-
یہی بساط اگر ہے تو ایک روز فروغؔ
جو ہم سے جیت چکا ہے وہ ہم سے ہارے گا
11-
وہ جا چکا ہے پر اس کا چہرہ
اسی طرح میز پر سجا ہوا ہے
12-
مرا بدن جس کو چاہتا تھا
کسی نے وہ زہر پی لیا ہے
13-
صبح کو شہرِ طرب ہو مشہور
شام کو دشتِ بلا کہلائے
14-
زندگی یاد رکھنا کے دو چار دن
میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا
رنگ ہی رنگ تھا شہرِ جاں کا سفر
راہ میں جسم کا حادثہ بھی رہا
15-
وہ مرا ہم نشیں ہم نوا ہم نفس
بھونکتا بھی رہا کاٹتا بھی رہا
16-
سفر میں جب تلک رہنا گھروں کی آرزو کرنا
گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا
تمہیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو
تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا
نئے چہروں سے ملنے کے لیے کیا شکل بہتر ہے
پرانے پیرہن پر رنگ کرنا یا رفو کرنا
17-
پیارے اتنا یاد رہے
میں اِک دِن مر جاؤں گا
18-
کل کسی اجنبی کا حسن مجھے
یاد آیا تو یاد آئے گیا
دل کی ویرانیاں چھپانے کو
جتنے شوکیس تھے سجائے گیا
مجھ میں کیا بات تھی رئیس فروغؔ
وہ سجن کیوں مجھے رجھائے گیا
19-
پھر کبھی ہوں نہ ہوں ہم بہم دوستو
مہرباں دوستو محترم دوستو
کیا حسیں لوگ دست و گریباں ہوئے
بہرِ تقسیم دام و درم دوستو
20-
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اُتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
21-
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں
خرامِ عمر ترا کام پائمالی ہے
مگر یہ دیکھ ترے زیرِ پا تو میں بھی ہوں
تلاشِ گم شدگاں میں نکل چلوں لیکن
یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہوا تو میں بھی ہوں
22-
دریچے تو سب کھل چکے ہیں مگر
دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں
23-
سخت برہم تھیں ہوائیں پھر بھی
ریت پر پھول بنائے میں نے
24-
میرے آنگن کی اُداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
25-
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
ہم لوگ بُرے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر
26-
دشت سے دُور سہی سایہء دیوار تو ہے
ہم نہ ٹھہریں گے کوئی اور ٹھہر جائے گا
27-
داغ رہنے کے لیے ہوتے ہیں رہ جائیں گے
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں رو پوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
28-
دیکھ لوں میں بھی ہوں میرا جسم بھی
بس ہوا یہ ہے کہ چہرہ جل گیا
آگ برسی تھی بدی کے شہر میں
اک ہمارا بھی شناسا جل گیا
29-
گرمیوں کی دوپہر کا ذکر ہے
ہم تھے گھر میں اور گھر تھا دھوپ میں
30-
کچے رنگ چرائے ہیں
میں نے ایک سراپا سے
جیون بھر کی بات نہ کر
ہم ایسے بے پروا سے
31-
ہوئی اب کے برس اک بات نئی
ترا درد نہ جاگا پُروا میں
تجھے پاس بٹھا کے دیکھوں گا
کسی روز خیالِ تنہا میں
32-
قامت اس کا بُرا نہ تھا
لیکن مجھ پر سجا نہیں
کالے بادل الجھے ہیں
ہوا کا جادو چلا نہیں
گن لیتا تھا ارب کھرب
ستر سال جیا نہیں
ہاتھ کا پنکھا ٹھہر گیا
اب سونے میں مزہ نہیں
33-
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے - ہم اپنے کام سے
دشمن ہے اک شخص بہت ایک شخص کا
ہاں عشق ایک نام کو ہے بہت ایک نام سے
34-
اس جسم کو ہر وقت دوا چاہیے کوئی
معلوم نہیں کون سی مٹی سے بنا ہے
35-
کدھر کدھر سے ہواؤں کے سامنے آؤں
چراغ کیا ہے مرے واسطے وبال سا ہے
کہاں سے اٹھتے ہیں بادل کہاں برستے ہیں
ہمارے شہر کی آنکھوں میں اک سوال سا ہے
36-
نازک بیلیں آنگن میں
دھیان الجھا ہے ساجن میں
آگ نہا کے چمکی تھی
بھول ہوئی پاگل پن میں
ہاتھ میں تازہ جگنو تھے
اور کلائی کنگن میں
ساگر کی یہ سبک ہوا
زہر بھرا ہے بیرن میں
میرے دن تو بیت گئے
اپنے آپ سے اَن بَن میں
37-
کہیں ملتے ہیں تو مل لیتے ہیں
رنج کہتے نہیں اپنا اپنا
اب ترے شہر کی دیواروں میں
بات کرتا ہے سراپا اپنا
38-
آج کی نیند اچٹنے پر
کتنی دیر اُداس رہوں
دھیان کے جل تھل ایک ہوئے
اب میں تجھ سے کہاں ملوں
39-
شہر کا شہر بسا ہے مجھ میں
ایک صحرا بھی سجا ہے مجھ میں
کئی دن سے کوئی آوارہ خیال
راستہ بھول رہا ہے مجھ میں
40-
ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی
آئینہ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
آتے جاتے رہے موسم کیا کیا
جو فضا تھی وہ فضا ہے مجھ میں
41-
یہ کشادہ کشادہ فضا ہر طرف
اور یہ ایک ہی راستہ ہر طرف
42-
کیے جاتا ہے کب سے کائیں کائیں
تو اے کوے رشی ہے یا مُنی ہے
43-
فروغؔ اس کے شہر میں
پئے بغیر ہی بہک
44-
آدھے لوگ کچل جاتے ہیں
خواب میں لوگ بدل جاتے ہیں
باتیں سڑک پر رہ جاتی ہیں
ساتھی دُور نکل جاتے ہیں
کھو جاتی ہیں جن کی مائیں
وہ بچے بھی پَل جاتے ہیں
45-
پہلے ترے نگر کی ہوا پارسا لگی
پھر یوں ہوا کے ساری فضا فاحشہ لگی
46-
نہ سناؤ کہ اپنے پرائے ہوئے
ملو سارے ملال چھپائے ہوئے
کسی کنج میں تھی کوئی شاخِ سمن
مرے نام کے پھول کھلائے ہوئے
کئی طرح کے لوگ ہیں پچھلے پہر
مرے حرف کی چھاؤں میں آئے ہوئے
47-
اپنا اپنا دھیان سہی
آج یہی اے جان سہی
اچھا سا اک بول کہو
جسم زرا ہلکان سہی
تیرا سپنا دیکھ سکوں
پھر آنکھیں ویران سہی
بادل گہرے شام سے ہیں
آخرِ شب طوفان سہی
48-
دیکھو کبھی جاتے موسم کو
پرچھائیں لیے سوغاتوں کی
49-
جو بات کبھی برسوں میں نہ ہو
اس بات کو جی اکثر چاہے
50-
روز سائے کہیں کو جاتے ہیں
ایک دن ہم بھی ساتھ ہو لیں گے
اک نئے غم کا ساتھ اور سہی
کبھی فرصت ملی تو رو لیں گے
51-
میں تو ہر لمحہ بدلتے موسم میں رہوں
کوئی تصویر نہیں جو ترے البم میں رہوں
جی میں آتا کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
52-
صحرا کی زندگی میں ہمارے تو عیش ہیں
دن کو غزال رات کو مہتاب دیکھنا
Tags:
رئیس فروغ