ندا فاضلی کا منتخب کلام
1-
بدلا نہ اپنے آپ کو جو تھے وہی رہے
ملتے رہے سبھی سے مگر اجنبی رہے
ہر وقت ہر مقام پر ہنسنا محال ہے
رونے کے واسطے بھی کوئی بے کلی رہے
اپنی طرح سبھی کو کسی کی تلاش تھی
ہم جس کے بھی قریب رہے دور ہی رہے
2-
مدتیں بیت گئیں خواب سہانا دیکھے
جاگتا رہتا ہے ہر نیند میں بستر میں
3-
بھول تھی اپنی، فرشتہ آدمی میں ڈھونڈنا
آدمی میں آدمیت ہے چلو یونہی سہی
4-
کوئی منظر سدا نہیں رہتا
ہر تعلق مسافرانہ ہے
دیس پردیس کیا پرندوں کا
آب و دانہ ہی آشیانہ ہے
5-
کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی
جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی
6-
جب بھی کسی نگاہ نے موسم سجائے ہیں
تیرے لبوں کے پھول بہت یاد آئے ہیں
7-
دن سلیقے سے اُگا رات ٹھکانے سے رہی
دوستی اپنی بھی کچھ زمانے سے رہی
چند لمحوں کو ہی بنتی ہیں مصور آنکھیں
زندگی روز تو تصویر بنانے سے رہی
8-
اب کے خفا ہوا ہے تو اتنا خفا بھی ہو
تو بھی ہو اور تجھ میں کوئی دوسرا بھی ہو
9-
کئی دنوں سے شکایت نہیں زمانے سے
10-
ان کی ناکامیوں کو بھی گنیے
جن کی شہرت ہے کامیابوں میں
11-
روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا
ہر نئے دن نیا انتظار آدمی
12-
ذہانتوں کو کہاں کرب سے فرار ملا
جسے نگاہ ملی اُس کو انتظار ملا
یہ شہر ہے کہ نمائش لگی ہوئی ہے کہیں
جو آدمی بھی ملا بن کے اشتہار ملا
13-
اپنا غم لے کے کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
14-
چاند سے، پھول سے یا میری زباں سے سنیے
ہر جگہ آپکا قصہ ہے جہاں سے سنیے
کیا ضروری ہے کہ ہر پردہ اٹھایا جائے
میرے حالات بھی اپنے ہی مکاں سے سنیے
15-
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا
ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک
جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا
میرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی
اس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا
16-
زندگی انتظار جیسی ہے
دور تک رہگزار جیسی ہے
چند بے چہرہ آہٹوں کے سوا
ساری بستی مزار جیسی ہے
راستے چل رہے ہیں صدیوں سے
کوئی منزل غبار جیسی ہے
کوئی تنہائی اب نہیں تنہا
ہر خموشی پکار جیسی ہے
زندگی روز کا حساب کتاب
قیمتی شے ادھار جیسی ہے
17-
جو ملا خود کو ڈھونڈتا ہی ملا
ہر جگہ کوئی دوسرا ہی ملا
غم نہیں سوتا آدمی کی طرح
نیند میں بھی یہ جاگتا ہی ملا
خود سے ہی مل کے لوٹ آئے ہم
ہم کو ہر سمت آئینہ ہی ملا
جب سے گویا ہوئی ہے خاموشی
بولنے والا بے صدا ہی ملا
ہر تھکن کا فریب ہے منزل
چلنے والوں کو راستہ ہی ملا
18-
جو کھو جاتا ہے مل کر زندگی میں
غزل ہے نام اس کا شاعری میں
کہیں چہرہ، کہیں آنکھیں، کہیں لب
ہمیشہ ایک ملتا ہے کئی میں
بہت مشکل ہے بنجارا مزاجی
سلیقہ چاہیے آوارگی میں
19-
(نظم تیسرا آدمی)
ان دنوں بہت دوستی تھی
اس دوستی کی بنیاد
کسی تیسرے شخص کی دشمنی تھی
دونوں نے اپنی ملی جلی کوششوں سے
دشمن کو راستے سے ہٹایا
اور پھر
وہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے
20-
کبھی کبھی کا یہ مل بیٹھنا غنیمت ہے
نئی لغت کے مطابق یہی محبت ہے
21-
خدا کے حکم سے شیطان بھی ہے آدم بھی
وہ اپنا کام کرے گا تم اپنا کام کرو
22-
چھوٹا لگتا تھا افسانہ
میں نے تیری بات بڑھا دی
جب بھی سوچا اس کا چہرہ
اپنی ہی تصویر بنا دی
23-
جو ملنا چاہو تو مجھ سے ملو کہیں باہر
وہ کوئی اور ہے جو میرے ہی گھر میں رہتا ہے
24-
آج زرا فرصت پائی تھی آج اسے پھر یاد کیا
بند گلی کے آخری گھر کو کھول کے پھر آباد کیا
بڑے بڑے غم کھڑے ہوئے تھے رستہ روکے راہوں میں
چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہی ہم نے دل کو شاد کیا
بات بہت معموللی سی تھی الجھ گئی تکراروں میں
ایک ذرا سی ضد نے آخر دونوں کو برباد کیا
داناؤں کی بات نہ مانی، کام آئی نادانی ہی
سنا ہوا کو، پڑھا ندی کو، موسم کو استاد کیا
25-
اتنا بھی بن سنور کے نہ نکلا کرے کوئی
لگتا ہے ہر لباس میں وہ بے لباس ہے
26-
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رُخ ہواؤں کا جدھر کا اُدھر کے ہم ہیں
Tags:
ندا فاضلی