خمار بارہ بنکوی کی غزلیں اور اردو اشعار

خمار بارہ بنکوی کی غزلیں اور اردو اشعار

خمارؔ بارہ بنکوی کا اصل نام تو محمد حیدر خان تھا لیکن وہ خمارؔ تخلص کرتے تھے۔ بارہ بنکی کے رہنے والے تھے۔ سو یوں خمارؔ بارہ بنکوی کہلائے۔ جگرؔ مراد آبادی ہی کے رنگ میں غزل کہتے ہیں اور انہیں ہی کی طرح بلا نوش بھی تھے۔ اور ان ہی کی طرح آخری وقت میں بلا نوشی سے توبہ بھی کی۔

خمارؔ ایک رندِ بلا نوش توبہ 
تجھے زاہدوں کی نظر لگ گئی ہے

 خمارؔ کی غزلوں کی ایک خصوصیت ان کی بے پناہ نغمگی ہے۔ خمارؔ کے معنوی اور شعری خاندان کا سلسلہ میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، اور جوشؔ سے نہیں ملتا۔ جگرؔ مراد آبادی کا عکس زیادہ ہے۔ مگر یہ صرف عکس ہی ہے۔ اصلیت خمار اور ان کی شاعری ہے۔ ذیل میں خمارؔ بارہ بنکوی کے کلام سے کچھ اشعار اور غزلیں منتخب کی ہیں امید واثق ہے کہ احباب قبول فرمائیں گے :)

 خمار بارہ بنکوی کی غزلیں اور اشعار

1-
کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا

یوں چونک اٹھے وہ سن کے مرا شکوہء فراق
جیسے انہیں بھی کوئی گلا یاد آیا

2-
ہاتھ ہٹتا نہیں ہے دل سے خمارؔ
ہم انہیں کس طرح سلام کریں

3-
تیری باتوں کو میں نے اے واعظ
احتراما ہنسی میں ٹالا ہے

شعر، نغمہ، شگفتگی، مستی
غم کا جو رُوپ ہے نرالا ہے

4-
مدت ہوئی میں غم سے بھی محروم ہوں یا رب
کیا حادثے بھی میرا پتہ بھول گئے ہیں

یہ بھول گئے ان کو خوشی بھی ہے یہ لیکن
یہ رنج بھی ہے واقعی کیا بھول گئے ہیں

آزار سہی عشق مگر ہائے رے لذت
یہ درد ملا ہے کہ دَوا بھول گئے ہیں

کہنا ہے خمارؔ اُن سے بہت کچھ ہمیں لیکن
کیا جانیے کیا یاد ہے کیا بھول گئے ہیں

5-
غم نے اِس طرح گن گن کے بدلے لیے
مُسکرانا بھی اک حادثہ ہو گیا

زندگی کا یہ عالم ہے تیرے بغیر
شاخ سے پھول گویا جُدا ہو گیا


6-
دَیر و حرم کے حبس کدوں کے ستائے ہیں
ہم آج میکدے کی ہَوا کھانے آئے ہیں

اب جا کے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دُنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم مسکرائے ہیں

جتنی بھی میکدے میں ہے ساقی پلا دے آج
ہم تشنہ کام زُہد کے صحرا سے آئے ہیں

کعبے میں خیریت تو ہے سب حضرتِ خمارؔ
یہ دَیر ہے جناب یہاں کیسے آئے ہیں

7-
وہ جو مَست آنکھوں کو مَل کر رہ گئے
کیسے کیسے دوور چل کر رہ گئے

آہ جن اشکوں کو پی جانا پڑا
اُف جو دریا رُخ بدل کر رہ گئے

لغزشیں بے کیف سجدے بے مزا
دل جو بدلا سب دل کر رہ گئے

ہم تو بہکے عشق میں ناصح مگر
ہائے رے وہ جو سنبھل کر رہ گئے

مسکرانے کے ارادے اے خمارؔ
بارہا اشکوں میں ڈھل کر رہ گئے

8-
ایسے ایسے ملے ہیں اہلِ کرم
کانپتے ہیں کرم کے نام سے ہم

شب پڑی ہے گزارنے کو خمارؔ
اور گھبرا رہے ہیں شام سے ہم

9-
گزرے ہوئے زمانے کو یاد نہ کر کبھی خمارؔ
اور جو یاد آ ہی جائے اشک بہا کے بھول جا

10-
شکستہ دل تو نہیں ہوں شکستہ پا ہوں میں
بڑے غرور سے منزل کو دیکھتا ہوں میں

اجل خمارؔ مرا آ کے کیا بگاڑے گی
کہ موت آنے سے پہلے ہی مر چکا ہوں میں

11-
قید رکھا ہمیں صیاد نے کہہ کہہ کے یہی
ابھی آزاد کیا، بس ابھی آزاد کیا

12-
نظر مل گئی ہے جو میری نظر سے
پسینے پسینے ہوئے جا رہے ہیں

13-
آپ کو جاتے نہ دیکھا جائے گا
شمع کو پہلے بجھاتے جائیے

شکریہ لطفِ مسلسل کا مگر
گاہے گاہے دلِ دُکھاتے جائیے

دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا
دوستوں کو آزماتے جائیے

14-
ضبط کو نظرِ آہ کر ڈالا
بے بسی میں گناہ کر ڈآلا

رحمتِ بے پناہ کے صدقے
اعتمادِ نجات باقی ہے

15-
تاریک ہوتی جاتی ہے محفلِ نشاط
یہ کون جا رہا ہے اجالے لیے ہوئے

16-
غنچے ہیں، گل ہیں، سبزہ ہے، ابرِ بہار ہے
سب جمع ہو چکے ہیں، ترا انتظار ہے

آگے جبینِ شوق تجھے اختیار ہے
یہ دَیر ہے، یہ کعبہ ہے، یہ کوئے یار ہے

17-
صلاحِ ترکِ محبت بجا، مگر ناصح
خطا معاف مجھے خودکشی قبول نہیں

کرم وہ مجھ پہ کیے میرے دوستوں نے خمار
میں کہہ اٹھا کہ مجھے دوستی قبول نہیں

18-
خمارؔ اب یہ زمانہ شوق سے ہم پر ہنسے
محبت کو خدا بخشے کبھی تھے دن ہمارے بھی

19-
یادش بخیر تھا کبھی ہم دوشِ آفتاب
وہ دل جو ایک قطرہء شبنم ہے اِن دنوں

وہ کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
یکساں مزاجِ شعلہ و شبنم ہے اِن دنوں

راتیں وہیں ہیں دن بھی وہی ہیں مگر خمارؔ!
دل وہ نہیں تو اور ہی عالم ہے ان دنوں

20-
علم و فن کے دیوانے عاشقی سے ڈرتے ہیں
زندگی کے خواہاں ہیں زندگی سے ڈرتے ہیں

یوں تو ہم زمانے میں کب کسی سے ڈرتے ہیں
آدمی کے مارے ہیں آدمی سے ڈرتے ہیں

جل کے آشیاں اپنا خاک ہو چکا کب کا
آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتے ہیں

توبہ اور جوانی میں اے خمارؔ کیا کہا
لوگ آپ جیسے ہی مُتقی سے ڈرتے ہیں

21-
اِدھر آ، اے خوشی، اے مُخبرِ غم
تجھے ہم خوب پہچانے ہوئے ہیں

میں ناواقف نہیں دَیر و حرم سے
یہ ویرانے مرے چھانے ہوئے ہیں

کھڑے ہیں مَیکدے کے دَر پہ زاہد
نہ جانے دل میں کیا ٹھانے ہوئے ہیں

خمارؔ اس دور میں ذکرِ محبت
یقیناََ آپ دیوانے ہوئے ہیں

22-
وہ جو آئے حیات یاد آئی
بھولی بسری سی بات یاد آئی

حالِ دل ان سے کہہ کے جب لوٹے
ان سے کہنے کی بات یاد آئی

تیرے در سے اٹھے ہی تھے کہ ہمیں
تنگیِ کائنات یاد آئی

کیا جوانی گئی جنابِ خمارؔ
کیسے توبہ کی بات یاد آئی

23-
زمانہ ہو گیا ترکِ محبت کو مگر اب تک
محبت کام اپنا کر ہی جاتی ہے خمار اکثر

24-
جام و ساغر کہاں وہ آنکھ کہاں
چند یوں ہی سے استعارے ہیں

دوست ہوتے جو وہ تو کیا ہوتا
دشمنی پر جب اِتنے پیارے ہیں

اے غمِ دوست تیری عمر دراز
ہم نے جنت میں دن گزارے ہیں

خیر سے ہم تو ڈوبتے ہیں خمارؔ
ہائے وہ جو ابھی کنارے ہیں

25-
اس طرح بسر ہوتے ہیں دن رات ہمارے
اک تازہ بلا آئی جو اک ٹل گئی سر سے

صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اُجڑے ہوئے گھر سے

جائیں تو کہا جائیں کھڑے سوچ رہے ہیں
اٹھنے کو خمار اٹھ تو گئے ہم کسی دَر سے

26-
کیا بَلا ہے خوشی خدا جانے
ہم تو بس نام سنتے آئے ہیں

فاصلے اور بڑھ گئے ہیں خمارؔ
جب کبھی وہ قریب آئے ہیں

27-
لِلہ آئینہ تو کبھی دیکھ لو خمارؔ
تم کیا تھے اور عشق میں کیا ہو کے رہ گئے

28-
یہ کون آدھی رات کو آیا ہے میکدے 
توبہ! جنابِ شیخ ہیں، تشریف لائیے

بے موت مار ڈالیں گی یہ ہوشمندیاں
جینے کی آرزو ہے تو دھوکے بھی کھائیے

29-
ناصح کی سوجھ بوجھ میں کس کو کلام ہے
بس اس کی رائے عشق کے بارے میں خام ہے

ساقی نہ دے شراب نظر بھر کے دیکھ لے
تیرے خمارؔ کو تری آنکھوں سے کام ہے

30-
کیا گزری ان پہ حضرتِ ناصح بتائیے
جو سادہ لَوح آپ کی باتوں میں آ گئے

توبہ کے بعد جب کبھی چھائی گھٹا خمارؔ
رحمت سے چھیڑ چھاڑ کے دن یاد آ گئے

31-
قیامت سے تھا غائبانہ تعارف
کسی کی جوانی کے آنے سے پہلے

خمارؔ ان کو اپنا بنانا مبارک
مگر پوچھ لیجے زمانے سے پہلے

32-
کس مزے سے ترے بغیر خمار
بے جیے زندگی گزار گیا

33-
عشق سے دور بھاگنے والو!
تھی یہی پہلے اپنی عادت بھی

اُف وہ دورِ نشاطِ عشق خمارؔ
لطف دیتی تھی جب مصیبت بھی


34-
ناصح ترے خلوص میں تو شک نہیں مگر
شام و سَحر کسی کو ستانا گناہ ہے

دامن ملے کسی کا تو جی بھر کے روئیے
مٹی میں آنسوؤں کو ملانا گناہ ہے

دن آج کے بھی کل نہیں رہنے کے اے خمارؔ
ماضی کی عظمتوں کو بھلانا گناہ ہے

35-
جو وطن کو اپنے لوٹے لیے رُخ پہ گردِ غربت
نظر آئے دوستوں کو بھی ہم آہ اجنبی سے

36-
تھیں کمانیں تو ہاتھوں میں اغیار کے
تیر اپنوں کی جانب سے آتے رہے

کر لیا سب نے ہم سے کنارا مگر
اک ناصح ۤغریب تھے آتے جاتے رہے

میکدے سے نکل کر جنابِ خمارؔ
کعبہ و دَیر میں خاک اڑاتے رہے

37-
آج ہم ناگہاں کسی سے ملے
مدتوں بعد زندگی سے ملے

پھول کر لیں نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

خود سے ملنے کو عمر بھر ترسے
یوں تو ملنے کو ہم سبھی سے ملے

غم بھی ہم سے بڑی خوشی سے ملا
ہم بھی غم سے بڑی خوشی سے ملے

زندگی کے سلوگ کیا کہیے
جس کو مرنا ہو زندگی سے ملے

ہم پہ گزرا ہے وہ بھی وقت خمارؔ
جب شناسا بھی اجنبی سے ملے

38-
کیسے جیتے ہیں لوگ حیرت ہے
ہم تو اِس زندگی سے باز آئے

شام کی تیرگی گوارا تھی
صبح کی تیرگی سے باز آئے

سن کے باتیں جنابِ ناصح کی
ہم بہ مشکل ہنسی سے باز آئے

خود کشی جُرم ہے جنابِ خمارؔ
آپ کیوں میکشی سے باز آئے

39-
اچھا ہوا کہ سر سے بلا ٹل گئی خمار
کمبخت دل کے ناز اٹھانے کے دن گئے

40-
مل کے تم بچھڑ گئے یہ بھی اتفاق تھا
یہ بھی اتفاق ہے زندگی بدل گئی

41-
کہتے کہتے حالِ غم ہنس پڑے خمارؔ ہم
وہ تھے مائلِ کرم بات ہی بدل گئی

42-
واعظِ خانماں خراب مژدہ کہ چل بسا شباب
اب تو ہماری میکشی چند دنوں کی بات ہے

43-
ہم بگڑ کر جو ان کے در سے چلے
اپنی رفتار پر ہنسی آئی

جس نے رحمت کے ہوتے توبہ کی
اُس گنہگار پر ہنسی آئے

44-
اللہ رے تصور کی ستائی ہوئی آنکھیں
وہ سامنے ہیں اور یقیں مجھ کو نہیں آتا

45-
میکدے سے مجھے لوٹتا دیکھ کر
بولے زاہد یہ رستہ کدھر جائے ہے

46-
کرم جبرِ حالات کا ہے یہ ورنہ
بڑے با وفا تھے دغا دینے والے

47-
خمارؔ اور ترکِ مَے ناب توبہ
سلامت رہیں مشورہ دینے والے

48-
توبہ کیے زمانہ ہوا، لیکن آج تک
جب شام ہو تو کچھ بھی بنائے نہیں بنے

49-
یہ نصفِ شب یہ میکدے کا در یہ محتسب
ٹوکے کوئی تو بات بنائے نہیں بنے

جاتے تو ہیں صنم کدے سے حضرتِ خمار
لیکن خدا کرے کہ بن آئے نہیں بنے

50-
برسنے کو برسیں گھٹائیں مگر کب؟
کہ جب ج چکا تھا مرا آشیانہ

51-
آندھیو، جاؤ اب کرو آرام
ہم خود اپنا دِیا بجھا بیٹھے

جی تو ہلکا ہوا، مگر یارو
رو کے ہم لطفِ غم گنوا بیٹھے

بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے دَر پہ آ بیٹھے

حشر کا دن ابھی دُور ہے خمارؔ
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے

52-
اللہ رے موت کہاں مر گئی خمارؔ
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی