تابش دھلوی کا تعارف اور نمونہ کلام
تابشؔ دھلوی کا اصل نام مسعود الحسن تھا ۔ وہ 9 نومبر 1911ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔ تابشؔ دبستانِ دہلی کے آخری چراغ تھے۔ تابشؔ دھلوی نے ایک غزل گو کی حیثیت سے اس زمانے میں اپنا نام پیدا کیا جب فانیؔ، یگانہ، اصغر، اور حسرت کے سے اساتذہء فن کی غزلوں سے سارا برِ صغیر گونج رہا تھا۔ فانیؔ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ غالب سے متاثر تھے اور تابشؔ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فانیؔ سے متاثر ہیں۔ تابش دھلوی ایک دانشور اور براڈ کاسٹر بھی تھے۔ وہ آل انڈیا ریڈیو سے منسلک رہے ۔ ان کا آڈیشن پطرس بخاری نے لیا تھا اور پروگرام اناؤنسر کے لیے منتخب کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے۔ تابشؔ دھلوی 2004ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ تابشؔ دھلوی ایک متین اور سنجیدہ شاعر تھے، ان کے یہاں دل و دماغ بولتے ہیں، وہ صرف خوبصورت الفاظ کے تاروں پر نہیں جھولتے اور نہ ٹکسال کے انبار لگاتے ہیں بلکہ ان کے یہاں اس مقام کی شاعری ہوتی ہے جسے خوش ذوق شرفاء سُن کر حظ اٹھاتے اور کم ذوق لوگ سوچنے لگتے ہیں۔ تابشؔ میرؔ، مصحفیؔ، اور آتشؔ سے مختلف شاعر ہیں انہوں نے تمام استادوں سے فیض اٹھایا ہے لیکن خود کو ان میں گم نہیں ہونے دیا۔ اور یہی وہ رویہ ہے جس نے انہیں روایت میں رہتے ہوئے جدت کی پیوند کاری کا ہنر سکھایا۔
ذیل میں تابشؔ دھلوی کا منتخب کلام پیشِ خدمت ہے
1-
دسترس میں تو ہو کچھ نقدِ بہار
ہاتھ آئے تو گریباں ہی سہی
2-
مگر وہی ہے ترے غم کی تازگی کا سبب
غمِ جہاں ہمیں ہر چند ناگوار بہت ہے
3-
تلخیِ مے لذتِ کام و دہن ہے ساقیا
دے شرابِ تلخ پیمانہ بہ پیمانہ مجھے
4-
شکستہ پا سہی آزاد رَو ہیں ہم پھر بھی
غبار بن کے پسِ کارواں نہیں گزرے
5-
اب تیرا التفات تری بے رُخی سہی
ڈالی تو اک نظر غلط انداز ہی سہی
نعمت کا اعتبار ہیں محرومیاں اگر
اِک میکدے کا نام مری تشنگی سہی
کھاتی نہیں ہے چشمِ تماشا کوئی فریب
ہر چند روشنی کی جگہ تیرگی سہی
یہ بے تعلقی بھی تعلق سے کم نہیں
تابشؔ سے دوستی نہ سہی دشمنی سہی
6-
ہم کہ گر گر کے سنبھل سکتے ہیں
ابھی کچھ اور بھی چل سکتے ہیں
آپ بدلیں نہ جفا کی عادت
دل کے انداز بدل سکتے ہیں
7-
سازِ دل ٹوٹ گیا ہے شاید
لب پہ آتی نہیں فریاد اب کے
8-
اگلی منزل بہار ہو شاید
خونِ دِل اب ہے آستینوں میں
9-
شورشِ دل میں اے تابشؔ
دل بھی رہا ہے شامل کیا
10-
لاکھ زخمِ آرزو تازہ رہا
لطفِ غم پھر بھی کم اندازہ رہا
موسمِ گل سے فقط اتنا ہوا
کچھ شہیدوں کا لہو تازہ رہا
11-
تیرے دیوانوں کو آگے نہیں جانے دیتے
تیری دیوار کے سائے بھی تو دیوار ہوئے
ہم تری بزم کی ذلت پہ ہیں نازاں کیا کیا
ہائے وہ لوگ جو رُسوا سرِ بازار ہوئے
12-
ہوگا سکوں بھی ہوتے ہوتے
سو جاؤں گا روتے روتے
آخر دل ہے ٹہر جائے گا
شام و سحر کے ہوتے ہوئے
تابشؔ کٹ ہی جائے گی رات
کچھ موتی سے پروتے پروتے
13-
مجھے نصیب نہیں ہے غمِ اسیری بھی
کہ عمرِ قید، باندازہء بہار نہیں
14-
فصلِ گل اور کچھ نہیں تابشؔ
عمر اپنے شباب کی سی ہے
15-
دامنِ تنگ ننگِ بخشش تھا
ہم ترے در سے بے سوال گئے
16-
تیری آمد کی خبر جب سے سنی ہے اے دوست
ہم ترے شوق میں تاحدِ نظر جاتے ہیں
17-
بہت ہے اہلِ بصیرت کو ایک جلوہ بھی
وفورِ تشنہ لبی ہو اگر، تو خُم ہے سُبو
18-
بخش دے گا وہ بخشنے والا
بس یہ عذرِ گناہ رکھتے ہیں
19-
عشرتِ غم بھی معتبر نہ ہوئی
غم سے راحت ہوئی، مگر نہ ہوئی
عمر بھر کو متاعِ جاں ٹھہری
وہ خلش پھر جو عمر بھر نہ رہی
شبِ فرقت کے جاگنے والے
اتنے جاگے کہ پھر سحر نہ ہوئی
موت کو زندگی بنایا تھا
لو! یہ کوشش بھی کارگر نہ ہوئی
دیکھتی ہے نہ دیکھنے کی طرح
اک تماشا ہوا نظر نہ ہوئی
بے خبر سب سے کیا ہوئے تابشؔ
پھر ہمیں اپنی بھی خبر نہ ہوئی
20-
زندگی سیلِ بَلا ہے یوں سہی
سر سے گزرے تو وہ موجِ خوں سہی
دل بھی پہلو میں سلامت چاہیے
درد کی شورش روز افزوں سہی
مقتلِ جاں میں تو رونق چاہیے
کچھ نہیں تو حسرتوں کا خوں سہی
جب سفینے کا خدا ہے نا خدا
پھر کوئی دجلہ کوئی جیحوں سہی
درد ہی درماں ہے تابشؔ درد کا
آپ کہتے ہیں تو اچھا یوں سہی
21-
عشق بھی تابشؔ نہیں وجہِ نشاط
اب یہ رسمِ درد بھی دِل سے اٹھی
22-
منزلوں کو نظر میں رکھا ہے
جب قدم رہگذر میں رکھا ہے
اک ہیولا ہے گھر خرابی کا
ورنہ کیا خاک گھر میں رکھا ہے
ہم نے حسنِ ہزار شیوہ کو
جلوہ جلوہ نظر میں رکھا ہے
مفت ملتی ہے دشمنی تابشؔ
کیا کرشمہ ہنر میں رکھا ہے
23-
نوا تلخ تر چاہیے لیکن اے دل
کچھ آدابِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
24-
حسن کا آخر یہ اثر ہو گیا
جلوہ اک اندازِ نظر ہو گیا
ایک کفِ خاک بھی صحرا نہیں
کون یہاں خاک بسر ہو گیا
ہم سے تری چشمِ کرم پھر گئی
اور زمانہ بھی اُدھر ہو گیا
خون کی ریزش ہے کہ تھمتی نہیں
دیدہء تَر زخمِ جگر ہو گیا
25-
نہ کوئی جیب ہے نہ دامن ہے
پیرہن کتنا سادہ رکھتے ہیں
وہ بھی پڑتا ہے بر سرِ منزل
جو قدم بے ارادہ رکھتے ہیں
جاتا ہوگا کوئی تو منزل تک
جو قدم جادہ جادہ رکھتے ہیں
26-
دل بھی سینے میں اب نہیں تابشؔ
درد پھر یہ کہاں سے اٹھتا ہے
27-
اندوہِ جاں ہو، یا غمِ جاناں، کوئی تو ہو
کوئی حریفِ شوق تو ہو، ہاں کوئی تو ہو!!
اک نشترِ اَلم ہی سہی جاں نوازِ شوق
جب تُو نہ ہو قریبِ رگِ جاں کوئی تو ہو
ہر لمحہ ایک آرزوئے نَو تو ہے مگر
تکمیلِ آرزو کا بھی ساماں کوئی تو ہو!!
دائم سکوں ملے وہ اجل ہی سے اب سہی
آخر ہمارے درد کا دَرماں کوئی تو ہو!!
عرضِ ہنر کے ساتھ نبھے وضعِ عشق بھی
تابشؔ تری طرح سے غزل خواں کوئیں تو ہو!!
28-
پھر ہر سوادِ عقل کو یکسر اجالیے
پھر شرقِ جیب سے کوئی سورج نکالیے
29-
دوست دشمن میں بٹ گیا ہوں میں
کتنے رشتوں میں بٹ گیا ہوں میں
خود کو پہچان بھی نہیں سکتا
گرد میں اتنا اَٹ گیا ہوں میں
30-
آنے سے اُن کے بڑھ گئی بے مائیگی مری
گھر آمدِ بہار سے ویرانہ ہو گیا
31-
آج بزمِ خیال میں ہم نے
دیر تک ان کو جلوہ گر رکھا
32-
پھیلے جو کسی کے آگے تابشؔ
اب تک وہی ہاتھ شل رہا ہے
33-
عشرتِ مستقل چاہیے
دائمی سوزِ دل چاہیے
سرد و گرمِ مانہ سہیں
زندگی معتدل چاہیے
34-
موسم کیا بے درد ہوا ہے
پتہ پتہ زرد ہوا ہے
جوشِ جنوں میں کیا نظر آئے
آنکھ میں صحرا گرد ہوا ہے
یہ دل کا آزار ہے تابشؔ
کیسا چہرہ زرد ہوا ہے
35-
ذائقہ زندگی کا تلخ سہی
منھ مگر بے مزا نہیں اپنا
ایک بھی دوست عمر بھر نہ ملا
کوئی دشمن ہوا نہیں اپنا
36-
اپنی جاں کی شکستگی سے نہیں
جی شکستِ اَنا سے ڈرتا ہے
37-
ہم ٹھیرے دلی والے
کیوں تقلیدِ میرؔ کریں
38-
احوالِ شوق ہم سے بمشکل کہا گیا
پوچھا کسی نے حال تو بس دل کہا گیا
محرومیوں نے خوب پناہیں تلاش کیں
میں تھک گیا جہاں اُسے منزل کہا گیا
39-
شہرِ دل سے یا دیارِ جاں سے چلے
درد کے قافلے کہاں سے چلے
منزلیں بے نشاں رہیں ان کی
جو الگ ہو کے کارواں سے چلے
سَو زبانوں پہ بات ہے میری
کتنے قصے مرے بیاں سے چلے
ہاں بہا لے گیا انہیں طوفاں
جو سفینے نہ بادباں سے چلے
فاصلوں کا ہوا نہ اندازہ
ہم چلے بھی تو درمیاں سے چلے
رہے تنہا ہجومِ شوق میں بھی
ہم الگ ہو کے کارواں سے چلے
40-
زندگی کی بساط پر اکثر
جیتی بازی بھی ہم نے ہاری ہے
توڑو دل میرا شوق سے توڑو
چیز میری نہیں تمہاری ہے
اب تک ان سے نباہ رہا ہوں میں
تابشؔ اپنی یہ وضعداری ہے
41-
یہ تعلق جہاں سے کافی ہے
آپ سے رسم و راہ رکھتے ہیں
42-
ترا وصال تو کس کو نصیب ہے لیکن
ترے فراق کا عالم بھی کس نے دیکھا ہے
43-
اک شرر ہر نفس میں آتا ہے
سوزِ جاں کس کے بس میں آتا ہے
سر بسر میں اسیر ہوتا ہوں
جب بھی کوئی قفس میں آتا ہے
اس کا دامن مرا گریباں ہو
تب کہیں دسترس میں آتا ہے
دائمی روزِ وصل اے تابشؔ
دیکھیے کس برس میں آتا ہے
44-
ہر روز اک آوازہ انالحق کا لگائیں
دیکھیں تو کہ ہے سلسلہء دار کہاں تک
45-
موسمِ ہجر و وصال اچھا ہے
قریہء جاں کا یہ سال اچھا ہے
شورشِ عقل سے محفوظ رہیں
جو نہ آئے وہ خیال اچھا ہے
غم کہاں ملتا ہے دل کے بدلے
اتنی قیمت میں یہ مال اچھا ہے
46-
ربط کیا جسم و جاں سے اٹھتا ہے
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
----
Tags:
تابش دھلوی