انشا جی کی نظمیں - چاند نگر اور دلِ وحشی سے انتخاب

انشا جی کی نظمیں - چاند نگر اور دلِ وحشی سے انتخاب
01
ایسی راتیں بھی کئی گزری ہیں
۔
کہاں گیا تھا ـــ گھڑی دو گھڑی میں لوٹ آیا
شبِ فراق کا تارا ـــ رکاب میں لایا
اُداس شام ہے ــ ابھی کتنی رات باقی ہے!

یہ آج کونسی تاریخ تھی مہینے کی
مہِ تمام سرِ آسماں اُبھر آیا
مہِ تمام ــ ابھی کتنی رات باقی ہے؟

سُنو سُنو وہ کسی دُور کے محلے میں
ادائے خاص سے ہے پہرہ دار چِلایا
کسی کا نام ــ ابھی کتنی رات باقی ہے؟

وہ چرچ روڈ کے گھنٹے نے دو بجا بھی دیے
وہ پھیل پھیل چلا نیم کا گھنا سایا
بہ صحن و بام ــ ابھی کتنی رات باقی ہے؟

یہ کس کے پاؤں کی جھانجھن تھی ــ کس نفس کی سگندھ
یہ کس کے رُخ کا اُجالا ہوا تھا ــ کون آیا
خیالِ خام ــ ابھی کتنی رات باقی ہے؟

حریفِ مرحلہء ہفت خواں ہے منزلِ عشق
اسی طرح جو دلِ بے قرار بھر آیا
بہر مقام ــ ابھی کتنی رات باقی ہے؟

ستارہء سرِ مشرق غبارِ رہ سے ملول
دیارِ دُور سے یاں تک تُو کس طرح آیا
بہ ایں خرام ــ ابھی کتنی رات باق ہے؟

اُفق پہ غولِ بیاباں ہے یا سپیدہء صبح
شبِ فراق تجھے یاں تلک تو پہنچایا
بہ اہتمام ــ ابھی کتنی رات باقی ہے؟

چاند نگر سے انتخاب 1953ء



لوگ پوچھیں گے
۔
لوگ پوچھیں گے کیوں اُداس ہو تم
اور جو دل میں آئے سو کہیو
یُونہی ماحول کی گرانی ہے،
دِن خزاں کے ذرا اُدس سے ہیں،
کتنے بوجھل ہیں شام کے سائے،
اُن کی بابت خموش ہی رہیو
نام اُن کا نہ درمیاں آئے
نام اُن کا نہ درمیاں آئے
اُن کی بابت خموش ہی رہیو
'کتنے بوجھل ہیں شام کے سائے،
دن خزاں کے ذرا اُداس سے ہیں،
یُونہی ماحول کی گرانی ہے،
اور جو دل میں آئے سو کہیو!

لوگ پوچھیں گے کیوں اُداس ہو تم؟
1948ء۔



سائے سے!
۔
کیوں مرے ساتھ ساتھ آتا ہے؟
میری منزل ہے بے نشاں ناداں؟
ساتھ میرا ترا کہاں ناداں؟

تھک گئے پاؤں، پڑ گئے چھالے
منزلیں ٹمٹما رہی ہیں دُور!
بستیاں اور جا رہی ہیں دُور!

میں اکیلا چلوں گا اے سائے
کون عہدِ وفا نبھاتا ہے؟
کیوں مرے ساتھ ساتھ آتا ہے؟

تُو ابھی جا ملے گا سایوں میں
میں میں کہاں جاؤں میں کہاں جاؤں؟
کس کی آغوش میں اماں پاؤں
1944ء
۔



انتظار کی رات
۔
اُمڈے آتے ہیں شام کے سائے
دم بدم بڑھ رہی ہے تاریکی
ایک دُنیا اُداس ہے لیکن
کچھ سے کچھ سوچ کر دلِ وحشی
مسکرانے لگا ہے ۔ جانے کیوں؟
وہ چلا کارواں ستاروں
جھومتا ناچتا سُوئے منزل
وہ اُفق کی جبیں دمک اُٹھی
وہ فضا مسکرائی ــ لیکن دل
ڈوبتا جا ر ہا ہے ــ جانے کیوں
1945ء۔



اِنشا نے پھر عشق کیا
انشاؔ صاحب دیوانے
اپنے بھی وہ دوست ہوئے
ہم بھی چلیں گے سمجھانے



فروگزاشت
۔
درد رُسوا نہ تھا زمانے میں
دل کی تنہائیوں میں بستا تھا
حرفِ ناگفتہ تھا فسانہء دل
ایک دن جو انہیں خیال آیا
پوچھ بیٹھے 'اُداس کیوں ہو تم'؟
بس یونہی مسکرا کے میں نے کہا
دیکھتے دیکھتے سرِ مژگاں
ایک آنسو مگر ڈھلک آیا
عشق نورس تھا ــ خام کار تھا دل!
بات کچھ بھی نہ تھی مگر ہمدم
اب محبت کا وہ نہیں عالم
آپ ہی آپ سوچتا ہوں میں
دل کو الزام دے رہا ہوں میں
درد بے وقت ہو گیا رُسوا
ایک آنسو تھا پی لیا ہوتا
حُسن محتاط ہو گیا اُس دن
عشق توقیر کھو گیا اُس دن
ہائے کیوں اتنا بے قرار تھا دل۔
1947ء۔



ڈھلتی رات
۔
ڈھلتی ہوئی رات کی خموشی
بستی کی فضا پہ چھا گئی
ڈیوٹی ہے طویل سنتری کی
کتوں کو بھی نیند آ گئی ہے

گرجا کی گھڑی نے جھنجنا کر
چپکے سے جو دو بجا دیئے ہیں
لوگوں نے گرا لیے ہیں پردے
لوگوں نے دِیے بجھا دیئے ہیں

ہارا ہوا مارکٹ کا مزدور
ٹھیلے پہ دراز ہو گیا ہے
نالے ہی پہ اونگھتا ہے بیٹھا
پٹڑی ہی پہ پڑ کے سو گیا ہے

سگرٹ تک کی بند ہیں دُکانیں
سنما بھی اُجڑ چکے ہیں سارے
اِکا ہے نہ بس نہ گھوڑا گھوڑی
بوجھل ہیں قدم تھکن کے مارے

کونوں میں دبک گئی ہے آخر
پردوں سے وہ جھانکتی ہے
روزن ہیں تمام خالی خالی
جلوے نہ لگاوٹیں نہ آہیں

تاروں کی اُداس اُدس پلکیں
کہتی ہیں انہیں بھی کچھ ہوا ہے
کیسے بھلا سوئیں آنکھ جھپکیں
اب چاند جو سر پہ آ گیا ہے

ہم سے تو اِسے غرض نہ ہوگی
جانے یہ کسے بلا رہی ہے
گونجی ہے کہیں پہ کوئی سیٹی
کس شہر کی ریل جا رہی ہے

سگنل کے دیے کی اک چشمک
کہتی ہے ہزار ہا کتھائیں
ہم کو بھی قرار کی طلب ہے
کس در پہ چلیں، کسے جگائیں

1951ء



اِنشاؔ جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے، تم تنہا ہو
یہ جوگ بجوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو؟
کبھی پورب میں پچھم میں
تم پُروا ہو تم پچھوا ہو؟
جو نگری نگری بھٹکائے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں
کیا ایک تمہی یہاں دُکھیا ہو
کیا ایک تمہی پر دُھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کا سایا ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بگیا کا پھول میاں
کیوں شہر تجا، کیوں رُسوا ہو؟
کیوں وحشی ہو، کیوں رُسوا ہو؟
ہم جب دیکھیں بہروپ نیا
ہم کیا جانیں تم کیا کیا ہو؟



اِنشاء کہو مزاج مبارک کو اِن دنوں
دُنیا خوش آ رہی ہے کہ جانی اُداس ہو
نبھنے لگی ہے بلدۂ خوباں کی خاک سے
یا دل کی وحشتیں ہیں پرانی، اُداس ہو
وہ سر میں آپ کے تھا جو سودا چلا گیا
یا اب بھی ہے وہ جی گرانی، اُداس ہو
تنہا نشینی، خلق گریزی، فسردگی
بیتیں بہ طرزِ میرؔ سنانی، اُداس ہو
کل بزمِ دوستاں میں تمہارا ہی ذکر تھا
ہم نے سنی تمہاری کہانی، اُداس ہو
تم نے عجیب روگ ہے جی لگا لیا
تم نے ہماری بات نہ مانی اُداس ہو
دیکھو نہ اب بھی جی کو محبت سے پھیر کے
ایسی بھی کیوں کسی کی جوانی اُداس ہو


10۔
لو آج کی شب بھی سو چکے ہم

شامِ جدائی پھر لوٹ آئی سوئے ہوئے فتنوں کو جگایا
اِک بے نام کسک کے ہاتھوں‘ بات بات پہ دِل بھر آیا
آج بھی شاید ساتھ تمہارا منزل تک دینا ہے ستارو
پہلے بھی ہم نے اکثر تم کو صبح کی وادی تک پہنچایا
آنکھ مچولی کھیلا کریں گے کب تک یہ راتوں کے دُھندلکے
چاپ چاپ پر دل پوچھے گا یہ کون آیا یہ کون آیا
انشاؔ جی پھر اتنی سویرے صبر کا دامن چھوڑ رہے ہو
پچھلی رات کا درد ابھی تک سینے سے مٹنے نہیں پایا


11۔
سب مایا ہے
سب مایا ہے سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے
اِس عشق میں ہم نے جو کھویا ہے جو پایا ہے
جو تم نے کہا ہے، فیضؔ نے جو فرمایا ہے
سب مایا ہے
ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی
یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رُسوائی
بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے
سب مایا ہے
معلوم ہمیں قیس میاں کا قصہ بھی
سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی، یہ اِنشاؔ بھی
فرہاد بھی جو اِک نہر سی کھود کے لایا ہے
سب مایا ہے
جب دیکھ لے ہر شخص یہاں ہرجائی ہے
اِس شہر سے دور ۔ ۔ ۔ اِک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اس اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے


12۔
شہر دل کی گلیوں میں
شام کے بھٹکتے ہیں
چاند کے تمنائی
بے قرار سودائی
دل گداز تاریکی
جاں گداز تنہائی
رُوح و جاں کو ڈستی ہے
روح جاں میں بستی ہے
شہر دِل کی گلیوں میں
تاکِ شب کی بیلوں پر
شبنمیں سرشکوں کی
بے قرار لوگوں نے
بے شمار لوگوں نے
یادگار چھوڑی ہے
اتنی بات تھوڑی ہے؟
صد ہزار باتیں تھیں
حیلۂ شکیبائی تھیں
صورتوں کی زیبائی
قامتوں کی رعنائی
اِن سیاہ راتوں میں
ایک بھی نہ یاد آئی
جا بجا بھٹکتے ہیں
کس کی راہ تکتے ہیں
چاند کے تمنائی
یہ نگر کبھی پہلے
اِس قدر نہ ویراں تھا
کہنے والے کہتے ہیں
قریۂ نگاراں تھا
خیر اپنے جینے کا
یہ بھی ایک سامان تھا
آج دِل میں ویرانی
ابر بن کے گھر آئی
آج دِل کو کیا کہیے
باوفا نہ ہرجائی
پھر بھی لوگ دیوانے
آ گئے ہیں سمجھانے
اپنی وحشت دل کے
بن لیے ہیں افسانے
خوش خیال دُنیا نے
گرمیاں تو جاتی ہیں
وہ رُتیں بھی آتیں ہیں
جب ملول راتوں میں
دوستوں کی باتوں میں
جی نہ چین پائے گا
اَور اُوب جائے گا
آہٹوں سے گونجے گی
شہر دل کی پہنائی
اور چاند راتوں میں
چاندنی کے شیدائی
ہر بہانے نکلیں گے
آزمانے نکلیں گے
آرزو کی گیرائی
ڈھونڈنے کو رُسوائی
سرد سرد راتوں میں
زرد چاند بخشے گا
بے حساب تنہائی
بے حجاب تنہائی
شہر دِل کی گلیوں میں


13۔
یہ خلش کہاں سے ہوتی
تو کہے جائے گا کب تک کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اے دل اس درد کی سنتے ہیں دوا کچھ بھی نہیں
کس لئے چین سے محروم ہیں اپنے شب و روز
کچھ سمجھ نہیں آتا، بخدا کچھ بھی نہیں
مہرباں بھی ہیں محبت بھی ہے اُن کو ہم سے
لوگ کہتے ہیں، مگر ہم کو پتا کچھ بھی نہیں
آزمائیں تو سہی جذب محبت انشاؔ
ان کی نظروں میں چلو مان لیا کچھ بھی نہیں


14۔
حفاظتی بند باندھ لیجے
۔
ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو
جیسے جنگل میں رنگ و بُو لوگو
ساعتِ چند کے مسافر ہیں
کوئی دم اور گفتگو لوگو
تھے تمہاری طرح کبھی ہم بھی
رنگ و نکہت کی آبرو لوگو
قریہء عاشقی، سراچہء دل
گھر ہمارے بھی تھے کبھو لوگو
وقت ہوتا تو آرزو کرتے
جانے کس شے کی آرزو کرتے
تاب ہوتی تو جستجو کرتے
جانے کس کس کی جستجو کرتے
کوئی منزل نہیں روانا ہیں
ہم مسافر ہیں بے ٹھکانا ہیں۔


15۔
فردا
۔
ہاری ہوئی روحوں میں
اک وہم سا ہوتا ہے
تم خود ہی بتا دو نا
سجدوں میں دھرا ہے کیا
امروز حقیقت ہے
فردا کی خدا جانے
کوثر کی نہ رہ دیکھو
ترساؤ نہ پیمانے
داغوں سے نہ رونق دو
چاندی سی جبینوں کو
اُٹھنے کا نہیں پردا
ہے بھی کہ نہیں فردا


16۔
میں ہو اِنشاؔ، اِنشاؔ، اِنشاؔ
۔
کیوں جانی پہچان گئی ہو
اِنشا جی کو جان گئی ہو
جن سے شام سویرے آ کر
فون کی گھنٹی پر بُلوا کر
کیا کیا بات کیا کرتی تھیں
کیا کیا عہد لیا کرتی تھیں
دیکھو پیت نبھانا ہوگا
دیکھو چھوڑ نہ جانا ہوگا
پیت لگائی ریت نبھائی
ہم لوگوں کی ریت پرائی
میں ہوں اِنشاؔ، اِنشاؔ، اِنشاؔ

17۔
کل ہم نے سُپنا دیکھا ہے
۔

کل ہم نے سُپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے
اُس شخص کو اپنا دیکھا ہے
وہ شخص کہ جس کی خاطر ہم
اس دیس پھریں اُس دیس پھریں
جوگی کا بنا کر بھیس پھریں
چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
دھرتی کے مہکتے باغوں سے
کلیوں کی جھولی بھر لائیں
انبر کے سجیلے منڈل سے
تاروں کی ڈولی بھر لائیں
ہاں کس کے لیے سب اُس کے لیے
وہ جس کے لب پر ٹِیسو ہیں
وہ جس کے نیناں آہو ہیں
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی
جو درد بھی ہے اور دارُو بھی
وہ الھڑ سی، وہ چنچل سی
وہ شاعر سی، وہ پاگل سی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
ہم نام نہ اُس کا بتلائیں

اے دیکھنے والو تم نے بھی
اُس نار کی پیت کی آنچوں میں
اِس دل کا تپنا دیکھا ہے
کل ہم نے سُپنا دیکھا ہے


18۔

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں
۔
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشا جی کا نام نہ لو، کیا اِنشاؔ جی سودائی ہیں

ہیں لاکھوں روگ زمانے میں، کیوں عشق ہے رُسوا بیچارا
ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی، انسان کو رکھتی دُکھیارا
ہاں بے کل بے کل رہتا ہے، ہو پیت میں جس نے جی ہارا؟
پر شام سے لے کر صبح تلک یوں کون پھرے گا آوارہ؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشاؔ جی کا نام نہ لو، کیا اِنشاؔ جی سودائی ہیں؟

یہ بات عجیب سناتے ہو، وہ دنیا سے بے آس ہوئے
اک نام سُنا اور غش کھایا، اک ذکر پہ آپ اُداس ہوئے
وہ علم میں افلاطون ہوئے، وہ شعر میں تُلسی داس ہوئے
وہ تیس برس کے ہوتے ہیں، وہ بی۔ اے ایم۔ اے پاس ہوئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشاؔ جی کا نام نہ لو، کیا اِنشاؔ جی سودائی ہیں؟

گر عشق کیا ہے تب کیا ہے، کیوں شاد نہیں آباد نہیں
جو جان لیے بِن ٹل نہ سکے، یہ ایسی بھی اُفتاد نہیں
یہ بات تو تم بھی مانو گے، وہ قیسؔ نہیں فرہادؔ نہیں
کیا ہجر کا دارو مشکل ہے؟ کیا وصل کے نسخے یاد نہیں؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشاؔ جی کا نام نہ لو، کیا اِنشاؔ جی سودائی ہیں؟

وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے، تم نام نہ لو ہم جان گئے
وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشاؔ جی، اُس گھر می تھے مہمان گئے
پر اس سے تو کچھ بات نہ کی، انجان رہے انجان گئے
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشاؔ جی کا نام نہ لو، کیا اِنشاؔ جی سودائی ہیں؟

جو ہم سے کہو ہم کرتے ہیں، کیا انشاؔ کو سمجھانا ہے؟
اُس لڑکی سے بھی کہہ لیں گے، گو اب کچھ اور زمانا ہے
یا چھوڑیں یا تکمیل کریں، یہ عشق ہے یا افسانا ہے؟
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے، یہ کیسا تانا بانا ہے؟
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم اِنشاؔ جی کا نام نہ لو، کیا اِنشاؔ جی سودائی ہیں؟


19۔
ہم گھوم چکے بَستی بَن میں
اک آس کی پھانس لیے مَن میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا رُوپ لُٹاتا ہو
جب سُورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل مَیلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب دُور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو

کیا جھگڑا سُود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا رُوپا لے جائے
سب دُنیا، دُنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو

اک بار کہو تم میری ہو