کیوں نام ہم اس کا بتلائیں - ابن انشا

تم اُس لڑکی کو دیکھتے ہو؟ تم اُس لڑکی کو جانتے ہو؟ وہ اُجلی گوری؟ نہیں نہیں مست چکوری؟ نہیں نہیں وہ جس کا نیلا کُرتا ہے؟ وہ جس کا آنچل پیلا ہے؟ وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے؟ وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے؟ ان سب سے الگ ان سب سے پرے وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے کیا گول مٹول سا چہرہ ہے جو ہر دم ہنستا رہتا ہے کچھ چتون ہیں البیلے سے کچھ اس کے نین نشیلے سے اس وقت مگر سوچوں میں مگن وہ سانولی صورت کی ناگن کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے یہ گیت اسی کا دَرپن ہیں یہ ہمار جیون ہیں ہم اس ناگن کے گھائل ہیں ہم اس کے دَر کے سائل ہیں جب شعر ہمارے سنتی تھی خاموش دوپٹہ چنتی تھی جب وحشت اسے ستاتی تھی کیا ہرنی سی بن جاتی تھی یہ جتنے بستی والے تھے اس چنچل کے متوالے تھے اس گھر میں کتنے سالوں کی تھی بیٹھک چاہنے والوں کی گو پیار کی گنگا بہتی تھی وہ ناریہ ہم سے کہتی تھی انشا جی ہم تو تمہارے ہیں اب اور کسی کی چاہت کا کرتی ہے بہانہ بیٹھی ہے ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں نا دل مانا، نا ہم مانے انجام تو سب دنیا جانے جو ہم سے ہماری وحشت کا سنتی ہے فسانہ، بیٹھی ہے  ہم جس کے لیے پردیس پھریں جوگی کا بدل کا بھیس پھریں چاہت کے نرالے گیت لکھیں جی موہنے والے گیت لکھیں اس شہر کے ایک گھروندے میں اس بستی کے اک کونے میں کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے  اس درد کو اب چپ چاپ سہو انشا جی کہو تو اس سے کہو جو چتون کی شکنوں میں لیے آنکھوں میں لیے ہونٹوں میں لیے خوشبو کا خزانہ بیٹھی ہے لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں کیوں نام ہم اُس کا بتلائیں ہم جس کے لیے پردیس پھرے جوگی کا بنا کر بھیس پھرے چاہت کے نرالے گیت لکھے جو موہنے والے گیت لکھے جو سب کے لیے دامن میں بھرے خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی  جو درد بھی ہے اور دارُو بھی لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں کیوں نام ہم اس کا بتلائیں وہ کل بھی ملنے آئی تھی وہ آج بھی ملنے آئی ہے جو اپنی نہیں پرائی ہے  ۔۔  دلِ وحشی سے انتخاب

کیوں نام ہم اُس کا بتلائیں

تم اُس لڑکی کو دیکھتے ہو؟
تم اُس لڑکی کو جانتے ہو؟
وہ اُجلی گوری؟ نہیں نہیں
مست چکوری؟ نہیں نہیں
وہ جس کا نیلا کُرتا ہے؟
وہ جس کا آنچل پیلا ہے؟
وہ جس کی آنکھ پہ چشمہ ہے؟
وہ جس کے ماتھے ٹیکا ہے؟
ان سب سے الگ ان سب سے پرے
وہ گھاس پہ نیچے بیلوں کے
کیا گول مٹول سا چہرہ ہے
جو ہر دم ہنستا رہتا ہے
کچھ چتون ہیں البیلے سے
کچھ اس کے نین نشیلے سے
اس وقت مگر سوچوں میں مگن
وہ سانولی صورت کی ناگن
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے
یہ گیت اسی کا دَرپن ہیں
یہ ہمار جیون ہیں
ہم اس ناگن کے گھائل ہیں
ہم اس کے دَر کے سائل ہیں
جب شعر ہمارے سنتی تھی
خاموش دوپٹہ چنتی تھی
جب وحشت اسے ستاتی تھی
کیا ہرنی سی بن جاتی تھی
یہ جتنے بستی والے تھے
اس چنچل کے متوالے تھے
اس گھر میں کتنے سالوں کی
تھی بیٹھک چاہنے والوں کی
گو پیار کی گنگا بہتی تھی
وہ ناریہ ہم سے کہتی تھی
انشا جی ہم تو تمہارے ہیں
اب اور کسی کی چاہت کا
کرتی ہے بہانہ بیٹھی ہے
ہم نے بھی کہا دل نے بھی کہا
دیکھو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
یوں پیار بڑھانا ٹھیک نہیں
نا دل مانا، نا ہم مانے
انجام تو سب دنیا جانے
جو ہم سے ہماری وحشت کا
سنتی ہے فسانہ، بیٹھی ہے

ہم جس کے لیے پردیس پھریں
جوگی کا بدل کا بھیس پھریں
چاہت کے نرالے گیت لکھیں
جی موہنے والے گیت لکھیں
اس شہر کے ایک گھروندے میں
اس بستی کے اک کونے میں
کیا بے خبرانہ بیٹھی ہے

اس درد کو اب چپ چاپ سہو
انشا جی کہو تو اس سے کہو
جو چتون کی شکنوں میں لیے
آنکھوں میں لیے ہونٹوں میں لیے
خوشبو کا خزانہ بیٹھی ہے
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اُس کا بتلائیں
ہم جس کے لیے پردیس پھرے
جوگی کا بنا کر بھیس پھرے
چاہت کے نرالے گیت لکھے
جو موہنے والے گیت لکھے
جو سب کے لیے دامن میں بھرے
خوشیوں کا خزانہ بیٹھی ہے
جو خار بھی ہے اور خوشبو بھی

جو درد بھی ہے اور دارُو بھی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
کیوں نام ہم اس کا بتلائیں
وہ کل بھی ملنے آئی تھی
وہ آج بھی ملنے آئی ہے
جو اپنی نہیں پرائی ہے

۔۔ 

دلِ وحشی سے انتخاب