دُکھ دل کا دارُو - میراجیؔ
دُکھ - دل کا دارُو
سفید بازو،
گداز اتنے
زباں تصور میں حظ اُٹھائے
اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں مگر انہیں برق ایسی لہریں
سمٹی مٹھی کی شکل دے دیں،
سفید بازو گداز اتنے کہ ان کو چھونے سے اک جھجک روکتی چلی جائے، روک ہی دے،
اور ایسے احساس اپنی خاصیتیں بدل کر
تمام ذہنی رگوں کے تاروں کو چھیڑ جائیں
اور ایک سے ایک مل کے سب تار جھنجھنائیں
اور ایک جھجلا کے کروٹیں لیتی گونج کو نیند سے جگائیں
اور ایسے بیدار ہوں اچھوتے، عجیب جذبے:
میں ان کو سہلاؤں اتنی شدت سے، چٹکیاں لوں کہ سیمگوں سطح، عکس بن جائے، نیلگوں بحرِ بیکراں کا،
اور اس طرح دل کی گہری خلوت میں ایسی آشائیں کروٹیں لیں
کہ ایک خنجر
اُتار دوں میں چبھا چبھا کر
سفید، مَر مَر سے مخملیں جسم کی رگوں میں۔
اور ایک بے بس، حسین پیکر
مچل مچل کر تڑپ رہا ہو
مری نگاہوں کے دائرے میں،
رگوں سے خون کی اُبلتی دھاریں
نکل نکل کر پھسل رہی ہوں، پھسلتی جائیں
سفید، مر مر سے جسم کی چاند رنگ ڈھلوان سے ہر اک بوند گرتی جائے
لپٹتی جائے ادھورے، بکھرے ہوئے پریشاں لباس کی خشک و تر تہوں می،
اور ایک بے بس، حسین عورت کے آنسوؤں میں
مری تمنائیں اپنی شدت سے تھک تھکا کر
عجیب تسکین اور ہلکی سی نیند کے اک سیاہ پردے میں چھپتی جائیں
سیاہ پردہ وہ رات کا ہو!۔
۔۔۔
میرا جی (کلیاتِ میراجیؔ سے)
Tags:
میراجیؔ