سلیم احمد کی غزلیں اور اشعار
1۔
حسن جب سے ہوا ہے کم آزار
عشق بھی بن گیا ہے دُنیا دار
2۔
تیرے آنے کی خبر پا کر ابھی سے دل نے
شکوہ کو اور کسی دن پہ اُٹھا رکھا ہے
بارہا یوں بھی ہوا تیری محبت کی قسم
جان کر ہم نے تجھے خود سے خفا رکھا ہے
ہجر میں رنج بھی کرتے ہیں پہ اتنا بھی سلیمؔ
یار تُو نے تو عجب حال بنا رکھا ہے
3۔
جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے
ہم سے وہ یارِ طرحدار نہ سمجھا جائے
اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے
4۔
دل دے چکے تو جان بھی نذرِ وفا کرو
انکار کا سلیمؔ کوئی راستہ نہیں
اللہ رے سلیمؔ تری بدگمانیاں
اتنی سی بات پر کہ وہ ہنس کر ملا نہیں
5۔
سلیمؔ نفع نہ کچھ تم کو نقدِ جاں سے اٹھا
کہ مال کام کا جتنا تھا سب دکاں سے اٹھا
برا لگا مرے ساقی کو ذکرِ تشنہ لبی
کہ یہ سوال مری بزم میں کہاں سے اٹھا
نگاہِ ناز بھی تھی مسکرانے والوں میں
عجیب لطف غرض غم کی داستاں سے اٹھا
تمام عمر کی محرومیوں کا حاصل تھا
وہ لطفِ خاص جو اک شب کے میہماں سے اٹھا
سلیمؔ راہِ وفا نقشِ پا کو ترسے گا
اب اعتبار اگر میرِ کارواں سے اٹھا
6۔
تری جانب سے دل میں وسوسے ہیں
یہ کتے رات بھر بھونکا کیے ہیں
لباسِ درد بھی ہم نے اُتارا
یہ کپڑے اب پرانے ہو چکے ہیں
7۔
اتنا یاروں کو نہ سُوجھا کہ لگا کر لاتے
یوں نہ آتا تو کوئی بات بنا کر لاتے
جانے کیا اٹھے دل کا ٹھکانہ کیا ہے
ایسے وحشی کو تو پہلے سے پڑھا کر اٹھے
یوں بھی سنتا ہے کہیں کوئی فسانہ غم کا
ایسے مضموں کو ذرا اور بنا کر لاتے
ہم تو اس بزم میں اے دل رہے تیری خاطر
کچھ اشارہ بھی جو پاتے تو بلا کر لاتے
رنگِ محفل کی بڑی دھوم سنی ہے یارو
کیا بگڑ جاتا ہمیں بھی جو دِکھا کر لاتے
آج ہی تم کو نہ آنا تھا چلو جاؤ سلیمؔ
ورنہ ہم آج تمہیں اُس سے مِلا کر لاتے
8۔
بزمِ اغیار سہی محفلِ پندار سہی
دل ہے خوددار تو اس بزم میں جاتا کیوں ہے
9۔
اب رہیں شاد یا رہیں ناشاد
کر لیا عشق، ہرچہ بادا باد
شہر ہیں اور بھی سلیمؔ بہت
ہے کراچی مگر عروس البلاد
10۔
کیا ارتباطِ عشق یہی ہے کہ بے سبب
کچھ سرگراں سے وہ ہیں تو کچھ بدگماں سے ہم
11۔
رسم و رہ کیا ہے ترے شہرِ کرم کی اے دوست
پوچھتا ہے کوئی احوال تو کیا کہتے ہیں
اے گلِ تازہ تجھے رنگِ چمن کیا معلوم
بادِ صرصر کو یہاں لوگ صبا کہتے ہیں
کس کو معلوم ہے جُز رمز شناسانِ غزل
ابر کیا چیز ہے اور کس کو ہوا کہتے ہیں
12۔
اِک حسنِ تازہ کار سے ہے واسطہ سلیمؔ
ورنہ وفا شعار ہم ایسے کہاں کے ہیں
13۔
مائلِ پرسشِ غم چشمِ کرم ہو کہ نہ ہو
اور کبھی ہو تو خدا جانے یہ غم ہو کہ نہ ہو
آج جی بھر کے رُلا اے غمِ ہجراں مجھ کو
جانے پھر لمحہء فرصت یہ بہم ہو کہ نہ ہو
ہم سے چھوٹی ہے نہ چھوٹے گی یہ رسمِ فرہاد
تجھ سے پابندیِ آئینِ ستم ہو کہ نہ ہو
اے تصور اسی اک لمحہ کو دے شانِ ابد
کیا خبر پھر کوئ یمائل بہ کرم ہو کہ نہ ہو
از فغاں تا بہ غزل فیض ہے اس کا جاری
وہ مرے دل کی خلش جو ترا غم ہو کہ نہ ہو
دیکھنا ی ہہے کہ تاثیر کہاں تک پہنچی
دل پہ جو کچھ بھی گزرتی ہے رقم ہو کہ نہ ہو
دیر سے چل کے ہر اک گام پہ تھی فکر سلیمؔ
ہم سے کیا جانئے تکریمِ حرم ہو کہ نہ ہو
14۔
ایک تو بزمِ خاص ہو اور وہ پھر بلائیں بھی
بات کبھی جو یوں بنے پھر تو سلیمؔ جائیں بھی
میرے سوالِ شوق کی گونج کہاں کہاں گئی
چونک پڑی نگاہِ ناز جاگ اٹھیں فضائیں بھی
آگ تھی کچھ دَبی دَبی درد تھا کچھ تھما تھما
یاد مگر وہ آ گئے چلنے لگیں ہوائیں بھی
آنے کا احتمال ہے یونہی سا کچھ خیال ہے
دل کا عجیب حال ہے اور جو کہیں وہ آئیں بھی
کوئی مقام بھی تو ہو دَیر سہی حرم سہی
اٹھ کے دیارِ ناز سے عمر کہیں گنوائیں بھی
لطف و کرم کی بات کیا آنکھ بھر آئی ہے سلیمؔ
یاد کبھی جو آ گئیں بھولی ہوئی جفائیں بھی
15۔
حالِ دل ناگفتنی ہے ہم جو کہتے بھی تو کیا
پھر بھی غم یہ ہے کہ اس نے ہم سے پوچھا ہی نہیں
بزمِ یاراں میں ہیں کیا کیا تذکرے چپ ہیں تو ہم
جیسے وہ حسنِ دلِ آرا ہم نے دیکھا ہی نہیں
16۔
سوچ میں گم بیکراں پہنائیاں
عشق ہے اور ہجر کی تنہائیاں
رات کہتی ہے کہ کٹنے کی نہیں
درد کہتا ہے کرم فرمائیں
بین کرتی ہے دریچوں میں ہوا
رقص کرتی ہیں سیہ پرچھائیاں
خامشی جیسے کوئی آہِ طویل
سسکیاں لیتی ہوئی تنہائیاں
کون تو ہے؟ کون میں؟ کیسی وفا؟
حاصلِ ہستی ہیں کچھ رُسوائیاں
یاد سے تیری سکوں یوں آ گیا
صبح دَم جیسے چلیں پُروائیاں
17۔
چھوٹ کر مجھ سے یہ رنگا رنگ بزم آرائیاں
تجھ کو بھی محسوس کیا ہونے لگی تنہائیاں
حسن نے خوئے تغافل سے توجہ ہی نہ کی
دید کے قابل تھیں ورنہ عشق کی رعنائیاں
صبحِ وعدہ شام ہونے آئی وہ آئے نہیں
دھوپ دیواروں پہ پہنچی بڑھ چلیں پرچھائیاں
فصلِ گل یوں آئی، یوں رُخصت ہوئی جیسے سلیمؔ
ایک حیلہ تھا کہ ہو جائیں مری رُسوائیاں
18۔
سمجھ سکو تو یہی ناز بھی ہے، عجز بھی ہے
ملا نہ دہر میں کوئی مری طبیعت کا
19۔
نشاطِ درد میں فرصت کہاں کہ غور کریں
سلیمؔ کیا ہوا اُلفت میں اور کیا نہ ہوا
20۔
ہم ن سمجھا تھا بہل جائیں گے باتوں میں سلیمؔ
وہ تو اس کے ذکر سے کچھ اور چپ چپ ہو گئے
21۔
دل کو کیا کیا گمان ہوتے ہیں
اُس کے انداز ہیں بہت مبہم
پھر سلیم اس کے در پہ جا پہونچے
گو نہ جانے کی کھا چکے تھے قسم
22۔
مدتوں بعد یادِ زلف آئی
دُور کے اُن سے سلسلے نکلے
ترکِ اُلفت کے بعد بھی اُن سے
وہی دل کے معاملے نکلے
23۔
اے تغافل شعار دیکھ کہیں
مجھ کو میری خبر نہ ہو جائے
24۔
جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے فسانہ کیسا
25
زمانہ گرمِ سفر ہے کہیں تو پائے گا
وہ دل جو مہر و محبت کی سرزمیں ہوں گے
26۔
عشق میں اور تو کیا ہونا تھا
ایک مجموعہ کی تالیف ہوئی
27۔
ریاکاری لبوں نے سیکھ لی ہے
کوئی حالت ہو ہنستے رہتے ہیں
28۔
جنہیں کل عشق بننا ہے وہ جذبے
نظر کی رشوتوں پر پل رہے ہیں
29۔
کسی نے بھی مجھے سمجھا نہیں ہے
یہ شکوہ ہے کوئی دعویٰ نہیں ہے
ابھی ہوں ایک مبہم سا تصور
ابھی اُس نے مجھے سوچا نہیں ہے
30۔
لوگ مرتے ہیں فائدے پہ جہاں
میں کھولی وہاں دکانِ زیاں
ایک تو بزمِ خاص ہو اور وہ پھر بلائیں بھی
بات کبھی جو یوں بنے پھر تو سلیمؔ جائیں بھی
میرے سوالِ شوق کی گونج کہاں کہاں گئی
چونک پڑی نگاہِ ناز جاگ اٹھیں فضائیں بھی
آگ تھی کچھ دَبی دَبی درد تھا کچھ تھما تھما
یاد مگر وہ آ گئے چلنے لگیں ہوائیں بھی
آنے کا احتمال ہے یونہی سا کچھ خیال ہے
دل کا عجیب حال ہے اور جو کہیں وہ آئیں بھی
کوئی مقام بھی تو ہو دَیر سہی حرم سہی
اٹھ کے دیارِ ناز سے عمر کہیں گنوائیں بھی
لطف و کرم کی بات کیا آنکھ بھر آئی ہے سلیمؔ
یاد کبھی جو آ گئیں بھولی ہوئی جفائیں بھی
15۔
حالِ دل ناگفتنی ہے ہم جو کہتے بھی تو کیا
پھر بھی غم یہ ہے کہ اس نے ہم سے پوچھا ہی نہیں
بزمِ یاراں میں ہیں کیا کیا تذکرے چپ ہیں تو ہم
جیسے وہ حسنِ دلِ آرا ہم نے دیکھا ہی نہیں
16۔
سوچ میں گم بیکراں پہنائیاں
عشق ہے اور ہجر کی تنہائیاں
رات کہتی ہے کہ کٹنے کی نہیں
درد کہتا ہے کرم فرمائیں
بین کرتی ہے دریچوں میں ہوا
رقص کرتی ہیں سیہ پرچھائیاں
خامشی جیسے کوئی آہِ طویل
سسکیاں لیتی ہوئی تنہائیاں
کون تو ہے؟ کون میں؟ کیسی وفا؟
حاصلِ ہستی ہیں کچھ رُسوائیاں
یاد سے تیری سکوں یوں آ گیا
صبح دَم جیسے چلیں پُروائیاں
17۔
چھوٹ کر مجھ سے یہ رنگا رنگ بزم آرائیاں
تجھ کو بھی محسوس کیا ہونے لگی تنہائیاں
حسن نے خوئے تغافل سے توجہ ہی نہ کی
دید کے قابل تھیں ورنہ عشق کی رعنائیاں
صبحِ وعدہ شام ہونے آئی وہ آئے نہیں
دھوپ دیواروں پہ پہنچی بڑھ چلیں پرچھائیاں
فصلِ گل یوں آئی، یوں رُخصت ہوئی جیسے سلیمؔ
ایک حیلہ تھا کہ ہو جائیں مری رُسوائیاں
18۔
سمجھ سکو تو یہی ناز بھی ہے، عجز بھی ہے
ملا نہ دہر میں کوئی مری طبیعت کا
19۔
نشاطِ درد میں فرصت کہاں کہ غور کریں
سلیمؔ کیا ہوا اُلفت میں اور کیا نہ ہوا
20۔
ہم ن سمجھا تھا بہل جائیں گے باتوں میں سلیمؔ
وہ تو اس کے ذکر سے کچھ اور چپ چپ ہو گئے
21۔
دل کو کیا کیا گمان ہوتے ہیں
اُس کے انداز ہیں بہت مبہم
پھر سلیم اس کے در پہ جا پہونچے
گو نہ جانے کی کھا چکے تھے قسم
22۔
مدتوں بعد یادِ زلف آئی
دُور کے اُن سے سلسلے نکلے
ترکِ اُلفت کے بعد بھی اُن سے
وہی دل کے معاملے نکلے
23۔
اے تغافل شعار دیکھ کہیں
مجھ کو میری خبر نہ ہو جائے
24۔
جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے فسانہ کیسا
25
زمانہ گرمِ سفر ہے کہیں تو پائے گا
وہ دل جو مہر و محبت کی سرزمیں ہوں گے
26۔
عشق میں اور تو کیا ہونا تھا
ایک مجموعہ کی تالیف ہوئی
27۔
ریاکاری لبوں نے سیکھ لی ہے
کوئی حالت ہو ہنستے رہتے ہیں
28۔
جنہیں کل عشق بننا ہے وہ جذبے
نظر کی رشوتوں پر پل رہے ہیں
29۔
کسی نے بھی مجھے سمجھا نہیں ہے
یہ شکوہ ہے کوئی دعویٰ نہیں ہے
ابھی ہوں ایک مبہم سا تصور
ابھی اُس نے مجھے سوچا نہیں ہے
30۔
لوگ مرتے ہیں فائدے پہ جہاں
میں کھولی وہاں دکانِ زیاں
Tags:
سلیم احمد