فیض احمد فیض کے پچاس اشعار
1۔
اس طرح اپنی خامشی گونجی
گویا ہر سمت سے جواب آئے
2
سوزشِ دردِ دل کسے معلوم!
کون جانے کسی کے عشق کا راز
3۔
فیضؔ زندہ رہیں وہ ہیں تو سہی
کیا ہوا گر وفا شعار نہیں
4۔
یہاں وابستگی، واں برہمی، کیا جانیے کیوں ہے؟
نہ ہم اپنی نظر سمجھے نہ ہم ان کی ادا سمجھے
5۔
ہمتِ التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
6۔
چشمِ میگوں زرا ادھر کر دے
دستِ قدرت کے بے اثر کر دے
7۔
نگاہِ شوق سرِ بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی، اتنے بے خبر بھی نہیں
8۔
نہ گئی تیری بے رُخی نہ گئی
ہم تری آرزو بھی کھو بیٹھے
9۔
حدیثِ بادہء و ساقی نہیں تو کس مصرف
خِرامِ اَبرِ سرِ کوہسار کا موسم
10۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
11۔
صبا نے پھر درِ زَنداں پہ آ کے دی دستک
سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے
13۔
یوں بہار آئی ہے اِمسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں
14۔
وہیں لگی ہے جو نازک مقام تھے دل کے
یہ فرق دستِ عدو کہ گزند کیا کرتے
15۔
پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں
16۔
اور کچھ دیر نے گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں
17۔
ہے دشت اب بھی دشت مگر خونِ پا سے فیضؔ
سیراب چند خارِ مغیلاں ہوئے تو ہیں
18۔
آتے آتے یونہی دم بھر کو رُکی ہو گی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
19۔
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بُتاں ٹھہری ہے
20۔
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
21۔
بہار آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں
کہ تَشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں
22۔
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے توبہ ابھی نہیں کی ہے
23۔
ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیمِ زُہد کر لے
سُوئے حرم چلا ہے انبوہِ بادہ خواراں
24۔
دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں اُن کے سامنے بات بدل بدل گئی
25۔
لاکھ پیغام ہو گئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے
26۔
بھیگی ہے رات فیضؔ غزل کی ابتدا کرو
وقتِ سرود، درد کا ہنگام ہی تو ہے
27۔
کبھی تو صبح ترے کنجِ لَب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے
28۔
وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی اُلفت مجھ سے
اِک نظر تُم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
29۔
یوں بہار آئی ہے اس بار کہ جیسے قاصد
کوچہء یار سے بے نیلِ مرام آتا ہے
30۔
رات مہکی ہوئی آئی ہے کہیں سے پوچھو
آج بکھرائے ہوئے زلفِ طرح دار ہے کون
31۔
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی
32۔
جانے کس پر ہو مہرباں قاتل
بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح
33۔
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
34۔
ہوا ہے جب سے دلِ ناصبور بے قابو
کلام تجھ سے نظرکو بڑے ادب سے ہے
35۔
یہ جامہء صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ! کبھی بخیہ گری نے
36۔
آشفتہ سر ہیں محتسبو! منہ نہ آئیو
سر بیچ دیں تو فکرِ دل و جاں عدو کریں
37۔
ترا لطف وجہِ تسکیں، نہ قرار شرحِ غم سے
کہ ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ پہنچے
38۔
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گِلا کریں
یہ نظر تھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے
39۔
پھر وہاں بابِ اثر جانئے کب بند ہوا
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی
40۔
کوئی دم بادبانِ کشتیِ صہبا کہ تہ رکھو
ذرا ٹھہرو، غبارِ خاطرِ محفل ٹھہر جائے
41۔
عمرِ جاوید کی دُعا کرتے
فیضؔ اتنے وہ کب ہمارے تھے
42۔
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
43۔
خوش دعوتِ یاراں بھی ہے یَلغارِ عُدو بھی
کیا کیجیے دل کا جو کم آمیز بہت ہے
44۔
اُترے تھے کبھی فیضؔ وہ آئینہء دل میں
عالم ہے وہی اج بھی حیرانیِ دل کا
45۔
جو تمہاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں نہ کسی صنم کی مروتیں
46۔
کسی طرح تو جمے بزم میکدے والوں
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہُو ہی سہی
47۔
ہم سمجھے تھے صیاد کا ترکش ہوا خالی
باقی تھا مگر اس میں ابھی تیرِ قضا اور
48۔
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طِفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
49۔
یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اک بات ٹھہر جائے
50۔
ہم ایک عمر سے واقف ہیں اب نہ سمجھاؤ
کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے
۔۔۔۔۔
[Nuskha Ha-e-Wafa]
Tags:
فیض احمد فیض