جمال احسانی کے پچاس اشعار | کلیاتِ جمال احسانی سے انتخاب

جمال احسانی کے پچاس اشعار

مرے پڑوس میں گزرا ہے سانحہ کوئی
وگرنہ صحن میں پتھر تو پھینکتا کوئی

یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا

دیواروں کا شوق جہاں تھا سب کو جمالؔ
عمر مری اُس خاندان میں گزری ہے

جمالؔ آخر ایسی عادتیں بھی کیا
کہ گھر میں شام ہی سے آن سو گئے

ہر آن بڑھتا ہی جاتا ہے رفتگاں کا ہجوم
ہوا نے دیکھ لیے ہیں چراغ سب میرے

جمالؔ کھیل نہیں ہے کوئی غزل کہنا
کہ ایک بات بتانی ہے اِک چھپانی ہے

تُو مری کھوئی نشانی کے سِوا کچھ بھی نہیں
میں تری یاد دہانی کے سِوا کچھ بھی نہیں


یہ ہم میں رنگِ حقیقت یونہی نہیں آیا
یہ رنگ پیدا اداکاریوں کے بعد ہوا


گھر بھی عزیز شوق بھی دل میں سفر کا ہے
یہ روگ ایک پل کا نہیں عمر بھر کا ہے

10۔
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے ہم سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

11۔
عکس شاید ہے سلامت پسِ آئینہء جاں
اپنی جانب کوئی بڑھتے ہوئے لشکر دیکھوں

12۔
موسمِ سنگ زنی کی ہے خبر گرم جمالؔ
دست و بازو کبھی دیکھوں تو کبھی سر دیکھوں

13۔
کاش میں تجھ پہ ریاضی کے سوالوں کی طرح
خود کو تقسیم کروں، کچھ بھی نہ حاصل آئے

14۔
اس شہرِ کم قداں میں ہنر آزمانا ہے
جب تک جمال اپنا یہاں آب و دانا ہے

15۔
ہے واقعہ ہدفِ سیلِ آب تھا کوئی اور
مرا مکان تو بس راستے میں آیا ہے

16۔
جمال دیکھ کے جیتا تھا جو کبھی تجھ کو
کہیں وہ شخص بھی کیا دیکھنے میں آیا ہے

17۔
نہ وہ حسین، نہ میں خوب رُو مگر اک ساتھ
ہمیں جو دیکھ لے وہ دیکھتا ہی رہ جائے

18۔
میں نے ہی در گزر سے لیا کام مدتوں
ورنہ ترے بچھڑنے کے امکان کب سے تھے

19۔
قرار دل کو سدا جس کے نام سے آیا
وہ آیا بھی تو کسی اور کام سے آیا

20۔
اسے بچا لیا آوارگانِ شام نے آج
وگرنہ صبح کا بھولا تو گھر چلا جاتا

21۔
کوئی چراغ سا جلتا ہے ساتھ کے گھر میں
کہ شب کو لوٹ کے جب تک میں آ نہیں جاتا

22۔
جمالؔ اب تو ہی رہ گیا پتا اُس کا
بھلی سی شکل تھی، اچھا سا نام تھا اُس کا

23۔
یہ ٹھیک ہے ترا کردار بے مثال رہا
مگر فسانے کا میں مرکزی خیال رہا

24۔
نیا شریکِ سفر چاہتیں جتاتا رہا
جمالؔ پچھلی محبت کی یاد آتی رہی

25۔
پتا تو خیر ٹھیک ہے مگر وہ شخص
زمانہ ہو گیا یہاں سے جا چکا

26۔
بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں تری گلی والے

27۔
بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے
وہ میرے یار مرے قہقہوں کے متوالے

28۔
وہ سارے رابطے توڑے گا ہم سے اور اچانک پھر
تعلق کی نئی صورت کوئی ایجاد کر دے گا

29۔
یہ مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

30۔
اِس شہر پہ کیا ٹوٹ پڑی ہے آفت
اندر سے کوئی شخص بھی زندہ نہ ملا

31۔
اُونچی عمارتوں کا مقدر بنا گئیں
وہ بارشیں جو میرے گھروندوں کو ڈھا گئیں

32۔
سب فرصت کی باتیں ہیں
کب ڈوبا، کب نکلا چاند

33۔
اُس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا نہیں
بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی

34۔
کچی مٹی سے بنا تو لو مکاں پر سوچ لو
بارشوں کو تو برسنے کا بہانہ چاہیے

35۔
جمال وار بھی اوچھا نہیں کیا لیکن
ہوا تھا رنج بھی اس کو تباہ کرتے ہوئے

36۔
تجھی پہ ٹوٹے نہیں ہیں اذیتوں کے پہاڑ
ہمیں بھی دیکھ کہ تجھ کو بھلا دیا کیسا

37۔
یوں نہ ہو بول پڑوں میں تری خاموشی پر
اور تجھے بزم سے مہمان اٹھانا پڑ جائے

38۔
بے کار سمجھ کر میں جلا بیٹھا جب اس کو
اک کام اچانک تری تصویر سے نکلا

39۔
عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارا کیا

40۔
کیا خبر تھی کہانی کوئی بن جائے گی
میں کل بزم میں ناگاہ اسے دیکھا تھا

41۔
اتنا ترا وصال تو چاہا نہ تھا کبھی
دل سے تری جدائی کا ڈر بھی نکل گیا

42۔
دل میں یادِ رفتگاں آباد ہے
ورنہ یہ دل بھی کہاں آباد ہے

43۔
کچھ باپ کا سایہ بھی بہت جلد اٹھا تھا
کچھ گردشِ دوراں نے مہذب نہیں رکھا

44۔
مبہم مجھ رہنے دے کہ ابلاغ کے جھگڑے
اظہار کی تفصیل میں رہتے ہیں ہمیشہ

45۔
تو مجھے چھوڑ کے جا سکتا نہیں
چھوڑ اس بات میں کیا رکھا ہے

46۔
سبھی کھڑے تھے شریکِ زمانہ ہوتے ہوئے
کسی نے روکا نہ گھر سے روانہ ہوتے ہوئے

47۔
وفورِ کیف سے سن ہو گئے تھے ہاتھ مرے
کہ اس کے عارض و لب کا سفر ہی ایسا تھا

48۔
علامتیں بہت سی ہیں نشانیاں بہت سی ہیں
ترے نہ ہونے کی مگر کہانیاں بہت سی ہیں

49۔
رخصت ہوا ہے دل سے تمہارا خیال بھی
اس گھر سے آج آخری مہمان بھی گیا

50۔
بہت دوسروں کو بہم آیا میں
مگر اپنے حصے میں کم آیا میں

۔۔۔۔۔
Intekhab az Kuliyat -e- Jamal Ehsani