عبدالحمید عدم کی غزلیں اور اشعار


ذہن گلزار ہو گیا ہوگا
باغباں یار ہو گیا ہوگا

بات سرکار بن گئی ہوگی
کام سرکار ہو گیا ہوگا

پھول اس زلف سے جدا ہو کر
سخت بیمار ہو گیا ہوگا

قافلہ اب نظر نہیں آتا 
تیز رفتار ہو گیا ہوگا

لَوٹتا کب تھا قیس گھبرا کر
شہر بیدار ہو گیا ہوگا

ایک ارماں تو تھا عدمؔ دل میں
سُوکھ کر خار ہو گیا ہوگا

آج تلخی بہت زیادہ ہے
ڈال کر زہر جام میں لاؤ

جل گیا عشق، مر گئے عاشق
اب تو خنجر نیام میں لاؤ

اے عدمؔ شہر کے عمائد کو
ورغلا کر عوام میں لاؤ

عدمؔ دیکھ کر زندگی کا سلوگ
یہی جی میں آتا ہے مَر جائیے

وہ جو برہم دکھائی دیتے ہیں
غنچہء و گل دُہائی دیتے ہیں

ہائے لرزش کسی کے بالوں کی
مجھ کو نغمے سنائی دیتے ہیں

کیا نئی بات کی پتنگے نے
جاں عموماََ فدائی دیتے ہیں

آہ و نالہ سے سُود کیا ہوگا
ان کو یہ کم سنائی دیتے ہیں

ناخن اُن کے ہیں یوں بھی تیز بہت
رنگ انہیں کیوں حنائی دیتے ہیں

رہزنوں سے ڈرو نہ اے یارو!
ان کو رستے سجھائی دیتے ہیں

ایسے بجتے ہیں بعض ساز عدم
جیسے زخمی دہائی دیتے ہیں


رُخ سے گیسو ہٹا کے بات کرو
مہ وَشو جگمگا کے بات کرو

بات ہی کیا چٹک نہ ہو جس میں
جب کرو مسکرا کے بات کرو

دور سے یہ ادا نہیں موزوں
یار نزدیک آ کے بات کرو

خشک باتیں بھلی نہیں لگتیں
دوستو پی پلا کے بات کرو

میں نہ کہتا تھا ظلم ٹھیک نہیں
سامنے اب خدا کے بات کرو

کیوں جھجکتے ہو بات کرنے سے
سامنے آؤ آ کے بات کرو

بتکدے کے چراغ مدھم ہیں
نوکِ ابرو ملا کے بات کرو

بات کا لطف گر اٹھانا ہے
مہ وَشو کو سُنا کے بات کرو

رند یوں گفتگو نہیں کرتے
اے عدمؔ جام اُٹھا کے بات کرو

یاروں کے ساتھ سیرِ خرابات کر چلے
نکلے تھے گھر سے وقتِ سحر رات کر چلے

اک صبح انکھڑیوں کی بھی قربت ہوئی نصیب
اک رات زلف سے بھی ملاقات کر چلے

ہم بھی کھڑےتھے پاس ہی معمول کے خلاف
جاتے ہوئے وہ ہم سے بھی بات کر چلے

کچھ ہم پہ دوستوں نے بھی احساں کیا عدمؔ
کچھ ہم بھی دوستوں پہ عنایات کر چلے

میں آج اعتدال کی حد سے گزر گیا
ساقی خطا معاف طبیعت خراب تھی

اُن کے الزام یاد آتے ہیں
پھول اور جام یاد آتے ہیں

جب بھی آتا ہے جام ہاتھوں میں
سینکڑوں نام یاد آتے ہیں

ڈال کر دو زہر آب گینوں میں
تلخ ایام یاد آتے ہیں

جب بھی آتے ہیں یاد وہ ہم کو
سحر و شام یاد آتے ہیں

اے عدمؔ جن میں دل پریشان تھا
کیوں وہ ایام یاد آتے ہیں

گیسوؤں کے اسیر ہو جائیں
آؤ اُن کے فقیر ہو جائیں

کتنے دل کش ہیں زندگی کے ستم
آروزو ہے کہ تیر ہو جائیں

تیرے ہونٹوں سے جام ٹکرا کر
چاندنی کی لکیر ہو جائیں

آپ اگر گیسوؤں کی پھیلا دیں
سلسلے بے نظیر ہو جائیں

دیکھ کر اُن کی انکھڑیوں کو عدمؔ
آب گینے فقیر ہو جائیں

10۔
کہاں تھی موسمِ گل کو قیام کی فرصت
بھرا تھا جام کہ فصلِ بہار ختم ہوئی

11۔
بہار آتی ہے جب ٹھنڈی ہوا تکلیف دیتی ہے
پیالوں کے کھنکنے کی صدا تکلیف دیتی ہے

اگرچہ اک زمانہ ہو گیا قطعِ مراسم کو
تمہاری یاد اب بھی با رہا تکلیف دیتی ہے

12۔
زخم دل کے اگر سئے ہوتے
اہلِ دل کس طرح جیے ہوتے

وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی
کاش تھوڑی سی ہم پیے ہوتے

آرزو مطمئن تو ہو جاتی
اور بھی کچھ ستم کیے ہوتے

میری الجھن کی بات ہی کیا تھی
ان گے گیسو سنور لیے ہوتے

لذتِ غم تو بخش دی اُس نے
حوصلے بھی عدم دِیے ہوتے

13۔
کٹ گئی غم کی رات یاد نہیں!
اب ہمیں کوئی بات یاد نہیں

زیست کی مہربانیاں توبہ؟
آپ کا التفات یاد نہیں

کل کی باتیں تو خیر خواب ہوئیں
آج کے واقعات یاد نہیں

آپ کیوں شرمسار ہوتے ہیں
واقعہ ہے کہ بات یاد نہیں

جام گردش میں آ رہا ہے عدمؔ
زیست کے حادثات یاد نہیں

14۔
ساقی غمِ زمانہ کو دُشنام چاہیے
اور میں، مجھے تو صرف ترا نام چاہیے

اِک عمر ہے اطاعتِ یزداں کے واسطے
دو چار دن پرستشِ اصنا چاہیے

میں غور کر رہا ہوں رموزِ حیات پر
اس وقت اِک چھلکتا ہوا جام چاہیے

یہ مانتا ہوں میں کہ شبِ نَو بہار میں
زلفِ دراز و عارضِ گلفام چاہیے

لیکن کسی کو گھر میں بُلانے کے واسطے
رطلِ شراب و شکلِ در و بام چاہیے

ساقی مجھے شراب کی تہمت نہیں پسند
مجھ کو تِری نگاہ کا الزام چاہیے

کرتا ہے عذرِ توبہ خرابات میں عدمؔ
اے بے ادب اطاعتِ احکام چاہیے

15۔
جنوں زندگی کا مخل ہو رہا ہے
تصور ترا مستقل ہو رہا ہے

کوئی بات پھر یاد آئی ہے دل کو
کوئی زخم پھر مندمل ہو رہا ہے

ابھی کیا شکایت کریں چارہ گر کی
ابھی چارہء دردِ دل ہو رہا ہے

مزاجِ خدا تو مزاجِ خدا ہے
مزاجِ بُتاں مشتعل ہو رہا ہے

عدمؔ عقل کی جستجو کا تصور
خرابات میں منتقل ہو رہا ہے

16۔
موت کی رُوداد طولانی نہیں
راستہ چلتے ہوئے نیند آ گئی

17۔
ہم تو بدنام ہیں عدمؔ یونہی
لوگ دنیا میں کیا نہیں کرتے

18۔
جانِ مَن آپ ایک کام کریں
اپنے الزام میرے نام کریں

آپ کی تمکنت کی عمر دراز
ہم فقیروں کا احترام کریں

بندہ پرور بہار کی رُت ہے
مسکرا کر ذرا کلام کریں

ایک دو ساغروں سے کیا ہوگا
کوئی معقول انتظام کریں

اے عدمؔ روز کا یہ جھگڑا کیا
بات کا سلسلہ تمام کریں

19۔
یہ اسرار رندوں کے تولے ہوئے ہیں
ترے نین بھی آج ڈولے ہوئے ہیں

نہ جانا چمن میں کہ اہلِ چمن نے
مہکتے ہوئے دام کھولے ہوئے ہیں

عدم غرقِ ہستی ہے اور زندنی نے
مصائب کے دیوان کھولے ہوئے ہیں

20۔
عذر کیا خوشگوار ہوتے ہیں
جرم بے اختیار ہوتے ہیں

ہم کو یوں بھی تباہ ہونا تھا
آپ کیوں شرمسار ہوتے ہیں

ہم غریبوں کے جرم ہستی پر
تبصرے بار بار ہوتے ہیں

ان سے ملنا اگر مقدر ہو
راستے بے شمار ہوتے ہیں

جب بھی ہوتے ہیں ہم عدمؔ تنہا
یار سے ہمکنار ہوتے ہیں

21۔
رنگ کا اکتساب لے آؤ
چاندنی کا شباب لے آؤ

موت کی خامشی مسلط ہے
زندگی کا رباب لے آؤ

غنچہ و گل کی نبض ڈوبی ہے
شبنم و آفتاب لے آؤ

بحرِ ظلمات سے گزرنا ہے
کشتیِ ماہتاب لے آؤ

جا کے پیرانِ میکدہ سے عدمؔ
نَو کشیدہ شراب لے آؤ

22۔
مَے سی حسین چیز ہو اور واقعی حرام
میں کثرتِ شکوک سے گھبرا کے پی گیا

سو بار لغزشوں کی قسم کھا کے چھوڑ دی
سو بار چھوڑنے کی قسم کھا کے پی گیا

پیتا کہاں تھا صبحِ ازل میں بھلا عدم
ساقی کے اعتبار پہ لہرا کے پی گیا

23۔
ساز آتے ہیں جام آتے ہیں
کیسے کیسے مقام آتے ہیں

تم نہ آئے تو کوئی بات نہیں
لوگ لوگوں کے کام آتے ہیں

زندگی کے حسین رستے میں
سبز و شاداب دام آتے ہیں

پھر وہی اضطراب ہے دل کو
پھر وہی صبح و شام آتے ہیں

اے عدمؔ کس ادا سے گردش میں
ساغر لالہ فام آتے ہیں

24۔
عدمؔ اتفاق اور اتنا حسیں
ملاقات اور چاندنی رات میں

25۔
آج کی رات خیر سے گزرے
دردِ دل بار بار اُٹھتا ہے

26۔
جام موجود ہے شراب نہیں
صورتِ حال کا جواب نہیں

زہر دیجیے کسی سلیقے سے
مجھ کو پینے سے اجتناب نہیں

اے مرا حال پوچھنے والے
حالِ دل اس قدر خراب نہیں

زندگی حادثہ سہی لیکن
حادثہ میرا انتخاب نہیں

آپ بھی خوب ہیں عدمؔ صاحب
آپ کا بھی کوئی جواب نہیں

27۔
اُودی اُودی گھٹائیں آتی ہیں
میکشو کی دعائیں آتی ہیں

جب بھی لیتا ہے کوئی انگڑائی
مطربوں کی صدائیں آتی ہیں

آؤ صحنِ چمن میں رقص کریں
ساز لے کر گھٹائیں آتی ہیں

موت کا کون غم کرے جب تک
زندگی کی ہوائیں آتی ہیں

دیکھ کر اُن کی انکھڑیوں کو عدمؔ
میکدوں کو حیائیں آتی ہیں

28۔
عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

29۔
اے صَبا دھوپ چڑھے اُن کو جگانا آ کر
گُلبدن دیر سے بیدار ہوا کرتے ہیں



30۔
بندہ پَرور ملا کرو ہم سے
تم کو مل کر خوشی سی ہوتی ہے

اُس کے چلنے کی طرز ایسی ہے
جس طرح راگنی سی ہوتی ہے

بات کا حسن ختم ہے اُن پر
بات پہلے بنی سی ہوتی ہے

میکدے کی شناخت یہ ہے عدمؔ
ہر طرف زندگی سی ہوتی ہے

31۔
گوریوں کالیوں نے مار دیا
جامنوں والیوں نے مار دیا

انگ ہیں یا رکابیاں دھن کی
موہنی تھالیوں نے مار دیا

32۔
مجھے دار کا کوئی کھٹکا نہیں
مَیں کس دن صلیبوں پہ لٹکا نہیں

میں غنچہ ہوں وہ تیرے گلزار کا
کسی مصلحت سے جو چٹکا نہیں

زبانی بہت کی ہیں دلداریاں
مگر پاس بھی کوئی پھٹکا نہیں

تھا سجدہ مجھے اپنا اتنا عزیز
جبیں کو کسی دَر پہ پٹکا نہیں

مجھے دُکھ ہے بے حد کہ اُس نے عدمؔ
مرا ہاتھ کیوں آج جٹکا نہیں

33۔
بات میں رَس ملا کے بات کرو
جب کرو مسکرا کے بات کرو

بات کی کاٹ دیکھنی ہے اگر
ہونٹ نزدیک لا کے بات کرو

اب تو کوئی بھی آس پاس نہیں
اب تو آنکھیں ملا کے بات کرو

بات سنتے ہی دل پھڑک اُٹھے
بات ایسی بنا کے بات کرو

بات باہر نہ جائے پردے کے
سارے پردے گرا کے بات کرو

بات کرنی ہے گر محبت کی
روشنی کو بجھا کے بات کرو

میں نہ کہتا تھا ظلم ٹھیک نہیں
سامنے اب خدا کے بات کرو

بات کا لطف تو تبھی ہے عدمؔ
پاس اُن کو بٹھا کے بات کرو

34۔
اتنے دلکش تھے اس بدن کے خطوط
کھل کے دیکھے بھی جو نہ جاتے تھے

عارضوں میں کنول چٹکتے تھے
کاکلوں میں طیور گاتے تھے

انتہا تھی وہ ظلم کی، وہ عدمؔ
جس محبت سے پیش آتے تھے

35۔
یہ گلا تو مٹا دیا ہوتا
درد کو دل بنا دیا ہوتا

لوگ جب میرا ذکر کرتے تھے
آپ نے مسکرا دیا ہوتا

حشر کے دن تو سونے والوں کو
بندہ پرور جگا دیا ہوتا

ہم غریبوں کی بات ہی کیا تھی
بار تھے تو بھلا دیا ہوتا

لوگ بھوکے تھے صرف باتوں کے
کوئی قصہ سنا دیا ہوتا

اس کی آنکھیں عدمؔ اگر کہتیں
ہم نے ساغر گرا دیا ہوتا

36۔
اُن کو عہدِ شباب میں دیکھا
چاندنی کو شراب میں دیکھا

آنکھ کا اعتبار کیا کرتے
جو بھی دیکھا خواب میں دیکھا

لوگ کچھ مطمئن بھی تھے پھر بھی
جس کو دیکھا عذاب میں دیکھا

ہجر کی رات سو گئے تھے عدمؔ
صبحِ محشر کو خواب میں دیکھا

37۔
حادثہ ہے کہ وہ بھی شاکی ہیں
جن کو ماحول سازگار ملا

جن کے دامن میں صرف کلیاں تھیں
اُن کا دامن بھی تار تار ملا

زیست نے کس سے کی نباہ عدمؔ؟
جبر پر کس کو اختیار ملا؟

38۔
میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا!
ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

39۔
کتنی دعائیں دوں تری زلفِ دراز کو
کتنا وسیع سلسلہء دام کر دیا

40۔
سویرے سویرے ترا نام لینا
لرزتے ہوئے ہاتھ میں جام لینا

نہ جانے زمانے کو کیا ہو گیا ہے
نہ آرام دینا، نہ آرام لینا

جوانی کے دن ہیں کہ پھولوں کے گجرے
ذرا بوسہء زلفِ ایام لینا

غمِ زیست میں رنگ بھرنے کی خاطر
کبھی ساز اُٹھانا کبھی جام لینا

خراماں خراماں کوئی آ رہا ہے
تدبر سے اے ہمنشیں کام لینا

بیاضِ عدمؔ سے کوئی شعر پڑھنا
کسی میکدے کا ذرا نام لینا

۔۔۔
:)