امجد اسلام امجد کے پچاس بہترین اشعار

1۔ ہے امجدؔ آج تک وہ شخص دل میں کہ جو اُس وقت بھی میرا نہیں تھا  2۔ کچھ ایسا درد تھا بانگِ جرَس میں سَفر سے قبل پچھتانے لگے ہیں  3۔ عکسِ اِمروز میں، نقشِ دیروز میں اِک اشارا تجھے، اِک اشارہ مجھے  4۔ دوستی کی زباں ہوئی متروک نفرتوں کے نصاب تازہ ہیں  5۔ اُس کے بندِ قبا کے جادو سے سانپ سے انگلیوں میں چلنے لگے  6۔ نیم شب کی خامشی میں، بھیگتی سڑکوں پہ کل تیری یادوں کے جِلو میں گھومنا اچھا لگا  7۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں فُرصت کتنی ہے پھر بھی تیرے دیوانوں کی شہرت کتنی ہے  8۔ چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن کیا روز گرجتے ہو، برس جاؤ کسی دن  9۔ تری زد سے نکلنا چاہتا ہے یہ دریا رُخ بدلنا چاہتا ہے  10۔ پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم  11۔ دیکھ لی جنتری زمانے کی وصل کا دن کسی برس میں نہیں  12۔ وقت اور بخت کے تعلق میں ایک بچہ ہے، اِک کھلونا ہے  13۔ خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پہ کم نہیں یارو مگر یہ کاٹنے والے! مگر یہ بانٹنے والے  14۔ حرمت شناسِ درد تھے، سو ہم نے عمر بھر امجد، حدیثِ جاں کا اِعادہ نہیں کیا  15۔ کبھی یوں بھی ترے رُوبرو، میں نظر ملا کے یہ کہہ سکوں "مری حسرتوں کو شمار کر، مری خواہشوں کا حساب دے!"  16۔ نہیں اب جہاں پہ نشان بھی یہاں لوگ بھی تھے مکان بھی  17۔ جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے اِسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہو جاتے ہیں  18۔ تری بے رُخی کے دیار میں، گھنی تیرگی کے حصار میں جلے کس طرح سے چراغِ جاں! کرے کس طرف کو سفر کوئی!  19۔ سرِ بزم جتنے چراغ تھے وہ تمام رمز شناس تھے تری چشمِ خوش کے لحاظ سے نہیں بولتا تھا مگر کوئی  20۔ سایا مثال آئے تھے اُس کی گلی میں ہم ڈھلنے لگی جو شام تو ڈھلنا پڑا ہمیں  21۔ خوشبو تھی جو خیال میں رزقِ اَلم ہوئی جو رنگِ اعتبار تھا، گردِ سفر ہوا  22۔ سانسوں میں تھے گلاب تو ہونٹوں پہ چاندنی ان منظروں سے میں تو کبھی آشنا نہ تھا  23۔ کہانی ایک ہے لیکن، جدا ہین واقعے اپنے تمہیں محشر اُٹھانا ہے، ہمیں محشر میں رہنا ہے  24۔ پھیلتی جا رہی ہے تنہائی  شہر میں لوگ آئے جاتے ہیں  25۔ نگاہوں سے کہو ہم کو سمیٹے مری جاں، ہم بہت بکھرے ہوئے ہیں  26۔ مثالِ نقشِ پا، حیران تیرے! ہَوا کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہیں  27۔ ہُوا ہے وہ اگر منصف تو امجدؔ احتیاطاََ ہم سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے  28۔ نہ کوئی غم خزاں کا ہے نہ خواہش ہے بہاروں کی ہمارے ساتھ ہے امجدؔ کسی کی یاد کا موسم  29۔ یہ کون آج مری آنکھ کے حصار میں ہے مجھے لگا کہ زمیں میرے اختیار میں ہے  30۔ بہت دُھندلے سہی شیشے سرِ بزمِ وفا امجدؔ مگر اک بار وہ گم گشتہ چہرے، دیکھ تو آئے  31۔ امجدؔ ہاتھ سے چُھوٹا پَل کب آتا ہے مُڑ کے ہاتھ  32۔ نجانے کون سی بستی کے ہیں یہ باشندے! نظر اٹھاتے نہیں اور گزرتے جاتے ہیں  33۔ ہیں غنیمت یہ چار لمحے پھر نہ ہم ہیں، نہ یہ تماشا ہے  34۔ دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے دروازہ ہم کو تیز ہوا، کھولنے تو دے  35۔ حاصلِ عُمرِ رواں، وہ وقت، جو ہم تری آب و ہوا میں رہ گئے  36۔ دیکھنے میں تو ایک ہے دریا سطح پر وہ نہیں جو تھاہ میں ہے  37۔ کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم اَمجدؔ ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا  38۔ کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بعد روز و شب میں سانس لے رہا تھا پہ زندہ نہیں رہا  39۔ یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں جیسے سوچی تھی اپنے جی میں، نہیں  40۔ اے گردشِ حیات کبھی تو دِکھا وہ نیند جس میں شبِ وصال کا نشہ ہو، لا وہ نیند  41۔ اک سرسری نگاہ تھی، اک بے نیاز چپ میں بھی تھا اس کے سامنے، میرا سوال بھی  42۔ مت پوچھ کیسے مرحلے آنکھوں کو پیش تھے تھا چودھویں کا چاند بھی، وہ خوش جمال بھی  43۔ اُس کو اہلِ ہوس نہ سمجھیں گے لطف جو فاصلے کی چاہ میں ہے  44۔ چاپ کوئی جو مڑ جاتی ہے دل دروازے سے کیا کیا ہم کو رات گئے تک وحشت رہتی ہے  45۔ "من نہ کردم، شما حذر بکنید" زندگی کا مآل سنتا جا  46۔ ہمارے بس میں کوئی فیصلہ تھا کب امجدؔ جنوں کو چنتے، وفا اختیار کرتے ہوئے  47۔ آنکھوں میں اتر آئے گی اندر کی اداسی امجدؔ جو یونہی آپ اکیلے میں رہیں گے  48۔ بس ایک شام بڑی خامشی سے ٹوٹ گیا ہمیں جو مان، تری دوستی میں رہتا تھا   49۔ کل شب تو اس کی بزم میں ایسا لگا مجھے! جیسے کہ کائنات مری دسترس میں تھی  50۔ امجدؔ کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کس طرح! لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھی حافظے میں تھے


ہے امجدؔ آج تک وہ شخص دل میں
کہ جو اُس وقت بھی میرا نہیں تھا

کچھ ایسا درد تھا بانگِ جرَس میں
سَفر سے قبل پچھتانے لگے ہیں

عکسِ اِمروز میں، نقشِ دیروز میں
اِک اشارا تجھے، اِک اشارہ مجھے

دوستی کی زباں ہوئی متروک
نفرتوں کے نصاب تازہ ہیں

اُس کے بندِ قبا کے جادو سے
سانپ سے انگلیوں میں چلنے لگے

نیم شب کی خامشی میں، بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جِلو میں گھومنا اچھا لگا

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں فُرصت کتنی ہے
پھر بھی تیرے دیوانوں کی شہرت کتنی ہے

چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو، برس جاؤ کسی دن

تری زد سے نکلنا چاہتا ہے
یہ دریا رُخ بدلنا چاہتا ہے

10۔
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم

11۔
دیکھ لی جنتری زمانے کی
وصل کا دن کسی برس میں نہیں

12۔
وقت اور بخت کے تعلق میں
ایک بچہ ہے، اِک کھلونا ہے

13۔
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پہ کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے! مگر یہ بانٹنے والے

14۔
حرمت شناسِ درد تھے، سو ہم نے عمر بھر
امجد، حدیثِ جاں کا اِعادہ نہیں کیا

15۔
کبھی یوں بھی ترے رُوبرو، میں نظر ملا کے یہ کہہ سکوں
"مری حسرتوں کو شمار کر، مری خواہشوں کا حساب دے!"

16۔
نہیں اب جہاں پہ نشان بھی
یہاں لوگ بھی تھے مکان بھی

17۔
جھونپڑیوں میں ہر اک تلخی پیدا ہوتے مل جاتی ہے
اِسی لیے تو وقت سے پہلے طفل سیانے ہو جاتے ہیں

18۔
تری بے رُخی کے دیار میں، گھنی تیرگی کے حصار میں
جلے کس طرح سے چراغِ جاں! کرے کس طرف کو سفر کوئی!

19۔
سرِ بزم جتنے چراغ تھے وہ تمام رمز شناس تھے
تری چشمِ خوش کے لحاظ سے نہیں بولتا تھا مگر کوئی

20۔
سایا مثال آئے تھے اُس کی گلی میں ہم
ڈھلنے لگی جو شام تو ڈھلنا پڑا ہمیں

21۔
خوشبو تھی جو خیال میں رزقِ اَلم ہوئی
جو رنگِ اعتبار تھا، گردِ سفر ہوا

22۔
سانسوں میں تھے گلاب تو ہونٹوں پہ چاندنی
ان منظروں سے میں تو کبھی آشنا نہ تھا

23۔
کہانی ایک ہے لیکن، جدا ہین واقعے اپنے
تمہیں محشر اُٹھانا ہے، ہمیں محشر میں رہنا ہے

24۔
پھیلتی جا رہی ہے تنہائی 
شہر میں لوگ آئے جاتے ہیں

25۔
نگاہوں سے کہو ہم کو سمیٹے
مری جاں، ہم بہت بکھرے ہوئے ہیں

26۔
مثالِ نقشِ پا، حیران تیرے!
ہَوا کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہیں

27۔
ہُوا ہے وہ اگر منصف تو امجدؔ احتیاطاََ ہم
سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے

28۔
نہ کوئی غم خزاں کا ہے نہ خواہش ہے بہاروں کی
ہمارے ساتھ ہے امجدؔ کسی کی یاد کا موسم

29۔
یہ کون آج مری آنکھ کے حصار میں ہے
مجھے لگا کہ زمیں میرے اختیار میں ہے

30۔
بہت دُھندلے سہی شیشے سرِ بزمِ وفا امجدؔ
مگر اک بار وہ گم گشتہ چہرے، دیکھ تو آئے

31۔
امجدؔ ہاتھ سے چُھوٹا پَل
کب آتا ہے مُڑ کے ہاتھ

32۔
نجانے کون سی بستی کے ہیں یہ باشندے!
نظر اٹھاتے نہیں اور گزرتے جاتے ہیں

33۔
ہیں غنیمت یہ چار لمحے
پھر نہ ہم ہیں، نہ یہ تماشا ہے

34۔
دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا، کھولنے تو دے

35۔
حاصلِ عُمرِ رواں، وہ وقت، جو
ہم تری آب و ہوا میں رہ گئے

36۔
دیکھنے میں تو ایک ہے دریا
سطح پر وہ نہیں جو تھاہ میں ہے

37۔
کیسے ملائیں آنکھ کسی آئنے سے ہم
اَمجدؔ ہمارے پاس تو چہرہ نہیں رہا

38۔
کاٹے ہیں اس طرح سے ترے بعد روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پہ زندہ نہیں رہا

39۔
یوں تو کیا چیز زندگی میں نہیں
جیسے سوچی تھی اپنے جی میں، نہیں

40۔
اے گردشِ حیات کبھی تو دِکھا وہ نیند
جس میں شبِ وصال کا نشہ ہو، لا وہ نیند

41۔
اک سرسری نگاہ تھی، اک بے نیاز چپ
میں بھی تھا اس کے سامنے، میرا سوال بھی

42۔
مت پوچھ کیسے مرحلے آنکھوں کو پیش تھے
تھا چودھویں کا چاند بھی، وہ خوش جمال بھی

43۔
اُس کو اہلِ ہوس نہ سمجھیں گے
لطف جو فاصلے کی چاہ میں ہے

44۔
چاپ کوئی جو مڑ جاتی ہے دل دروازے سے
کیا کیا ہم کو رات گئے تک وحشت رہتی ہے

45۔
"من نہ کردم، شما حذر بکنید"
زندگی کا مآل سنتا جا

46۔
ہمارے بس میں کوئی فیصلہ تھا کب امجدؔ
جنوں کو چنتے، وفا اختیار کرتے ہوئے

47۔
آنکھوں میں اتر آئے گی اندر کی اداسی
امجدؔ جو یونہی آپ اکیلے میں رہیں گے

48۔
بس ایک شام بڑی خامشی سے ٹوٹ گیا
ہمیں جو مان، تری دوستی میں رہتا تھا 

49۔
کل شب تو اس کی بزم میں ایسا لگا مجھے!
جیسے کہ کائنات مری دسترس میں تھی

50۔
امجدؔ کتابِ جاں کو وہ پڑھتا بھی کس طرح!
لکھنے تھے جتنے لفظ، ابھی حافظے میں تھے