ناصر کاظمی کا غیر مطبوعہ کلام

ناصر کاظمی کا غیر مطبوعہ کلام
01-
بستیاں بستی رہیں گی لیکن
اپنا تو ایک ہی گھر تھا نہ رہا

دیکھ آیا ہوں وہ خونی منظر
چشم کو ذوقِ تماشا نہ رہا

کس قدر امن ہے ملکِ دل میں
کسی امید کا کھٹکا نہ رہا

وہ کسی وقت نہ بھولا ناصرؔ
میں اُسے یاد رہا یا نہ رہا

02-
دِل دُکھایا تھا جس نے پہلی بار
اُسی موجِ طرب نے گھیر لیا

بات کس سے کروں کہ یاروں کی
رنجشِ بے سبب نے گھیر لیا

پھر کسی اجنبی مسافر کو
گردِ راہِ طلب نے گھیر لیا

آفتیں جیسے انتظار میں تھیں
تیرے جاتے ہی سب نے گھیر لیا

03-
اس سے پہلے کہ بچھڑ جائیں ہم
دو قدم اور مرے ساتھ چلو

ابھی دیکھا نہیں جی بھر کے تمہیں
ابھی کچھ دیر مرے پاس رہو

مجھ سا پھر کوئی نہ آئے گا یہاں
روک لو مجھ کو اگر روک سکو

یوں نہ گزرے گی شبِ غم ناصرؔ
اُس کی آنکھوں کی کہانی چھیڑو
04-
جب رات گئے تری یاد آئی سو طرح سے جی کو بہلایا
کبھی اپنے ہی دل سے باتیں کیں کبھی تیری یاد کو سمجھایا

یونہی وقت گنوایا موتی سا یونہی عمر گنوائی سونا سی
سچ کہتے ہو تم بھی ہم سخںو اِس عشق میں ہم نے کیا پایا

جب پہلے پہل تجھے دیکھا تھا دل کتنے زور سے دھڑکا تھا
وہ لہر نہ پھر دل میں جاگی وہ وقت نہ لوٹ کے پھر آیا

پھر آج ترے دروازے پر بڑی دیر کے بعد گیا تھا مگر
اِک بات اچانک یاد آئی میں باہر ہی سے لوٹ آیا

05-
آدمی ہے نہ آدمی کی ذات
کیسی ویراں ہے تیرے شہر کی رات

پُوچھ لے ان اجاڑ گلیوں سے
تجھے ڈھونڈا ہے ساری ساری رات

میں تو بیتے دِنوں کی کھوج میں ہوں
تو کہاں تک چلے گا میرے سات

اپنا سایہ بھی چھپ گیا ناصرؔ
یہاں سنتا ہے کون کس کی بات

06-
خاک بسر ہے چمن دیکھیے کب تک رہے
فصلِ خزاں خیمہ زن دیکھیے کب تک رہے

آ کے چلا بھی گیا موسمِ ہجر و صال
ہے ابھی دل میں چبھن دیکھیے کب تک رہے

سنتے ہیں ہوگی سحر میرے جہاں میں مگر
شامِ سیہ پیرہن دیکھیے کب تک رہے

07-
دفعتاََ ہنگامہء محشر اُٹھا
کُرہء خاکی دھواں بن کر اُٹھا

لرزہ براندام ہیں آبادیاں
پھر کوئی معمارِ غارت گر اُٹھا

جانبِ دل اک غبارِ بے کسی
ناگہاں شورِ جرَس بن کر اُٹھا

گوہرِ مقصود بھی مل جائے گا
پہلے اپنی راہ سے پتھر اُٹھا

دل کے ویرانے میں آئے گی بہار
خارِ مژگاں سے گلِ منظر اُٹھا

سایہ آسا خاک جوئی کب تلک
شعلہء جوّالہ بن کر سر اُٹھا

کیا مٹائے گا کوئی اپنا نشاں
یہ پھریرا بارہا گر کر اُٹھا
08-
کیوں نہ ہو سرسبز ہماری غزل
خونِ دل سے لکھی ہے ساری غزل

جتنی پیاری ہے تیری یاد مجھے
لب پہ آتی ہے ویسی پیاری غزل

سالہا سال رنج کھینچے ہیں
میں نے شیشے میں جب اُتاری غزل

جب بھی غربت میں دل اداس ہوا
میں تِرے ساتھ ہوں پکاری غزل

دمِ تخلیق پھچلی راتوں کو
یوں بھی ہوتی ہے مجھ پہ طاری غزل

عہدِ رفتہ کے شاعرانِ کرام
سب سناتے ہیں باری باری غزل

تہِ ہر لفظ شہر ہے آباد
مرجعِ خلق ہے ہماری غزل

سفرِ خامہ طے ہوا ناصرؔ
تھک گئے ہم مگر نہ ہاری غزل