ملے کہاں سے جب اس سیمبر میں خاک نہیں ۔۔ نواب الٰہی بخش معروف

ملے کہاں سے جب اس سیمبر میں خاک نہیں ۔۔ نواب الٰہی بخش معروف
ملے کہاں سے جب اس سیمبر میں خاک نہیں
ہم آئے ایسے قلندر کہ گھر میں خاک نہیں

الٰہی کس کی یہ دیکھیں ہیں سُرمہ سا آنکھیں
کہ دو جہاں تلک اپنی نظر میں خاک نہیں

عزیزو اس رہِ ہستی میں کیوں مکدر ہو
چلو عدم کو کہ اُس رہ گزر میں خاک نہیں

بصر کا نقص ہے خاکِ شفا کو کہنا خاک
یہ خاک دیدہء اہلِ بصر میں خاک نہیں

بجا ہے کوئی شرر کو کہے اگر ناری
بغیر آگ کے دیکھا شرر میں خاک نہیں

بشر کو حق نے بنایا ہے چار عنصر سے
کہو نہ خاک کہ صرف اس بشر میں خاک نہیں

نہ جی چرائے ہر ایک کیوں عدم کے جانے سے
سوائے رنج کے رختِ سفر میں خاک نہیں

یہ اتنی خاک پتنگوں کی کیا ہوئی اے شمع
کہ دیکھ دامنِ بادِ سحر میں خاک نہیں

کیا ہے قتل تو دفن اپنی ہی گلی میں کر
کہ چھوڑنے کا یہ ایک لحظہ بھر میں خاک نہیں

وضو کو مانگ کے پانی خجل نہ کر معروفؔ
یہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں

۔۔۔

نواب الٰہی بخش معروفؔ